Friday, December 6, 2013

تقابلی مطالعہ مزاہب ۔۔۔آخری حصہ

عالمی یونی ورسٹیوں میں اس طرح کے شعبےقائم ہو چکےہیں جہاں تقابلی مزہب ۔
کی تعلیم و تحقیق اعلی پیمانے پر ہوتی ہے۔
اس طرح کا سب سے اچھا مرکز ہارورڈ یونی ورسٹی میں ہے۔
یہاں مختلف مزاہب کے لوگ جمع ہو کر اپنے مزہب کے علاوہ کسی دوسرے عقیدے کا گہرا مطالعہ کرتے ہیں۔
ہر مزہب کی عبادت گاہیں بھی وہیں کیمپس میں موجود ہیں۔ اور ایسے مواقع بار بار ملتے ہیں جہاں سب جمع ہوکر ایک دؤسرے سے تبادلئہ خیال کرتے ہیں اور سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ 
ہندوستان میں انھیں بنیادوں پر پنجابی یونی ورسٹی پٹیالہ میں شعبہءتقابلی مزہب کا قیام عمل میں آیا تھا۔
یہاں ہندوستانی مزاہب کے علاوہ اسلام، عیسائیت، اور چینی مزاہب کے مطالعے کی سہولتیں موجود ہیں۔ شعبہ سے ایک سہ ماہی جرنل بھی ریلیجس سٹڈیز کے نام سے شائع ہوتا ہے۔
ہندوستان یسے ملک میں جہاں کئی تہزیبوں کا سنگم ہوا ہےاور جو خود بڑی تہزیبوں کا گہوارہ رہا ہے، جہاں آج بھی مختلف نسلوں پر مشتمل معاشرہ اور اور مختلف مزاہب کے پیرو موجود ہیں، ایک دؤسرے کو جاننے سمجھنے کی بہت ضرورت ہے۔
آج کے معاشرے میں ایسے علم و تحقیق کے شعبےہر دانش گاہ میں ہونے چاہئیں۔ پنجابی یونی ورسٹی نے پٹیالہ میں ایک چراغ روشن کیا ہے جس سے مستقبل میں دؤسرے چراگ بھی روشن ہونگے۔
بہت دنوں تک ہمارے تعلیمی ادارے اس اہم موضوع کو نظر انداز کرتے رہے۔ ایک ہی مزہب کے متعلق مطالعہ و تحقیق کے بہت سے مرکز مووجود تھےلیکن دؤسرے مزہب کے مطالعے یا تقابلی مزہب کی اہمیت کا احساس دیر میں جاگا ہے۔ لیکن اس سے جو خوشگوار نتائج نکلیں گے، ان سے دؤسروں کو بھی اس کی تقلید کا احساس ہوگا۔ 
ہندوستان میں سیکیولرزم اور تہزیبی کثرت میں قومی وحدت کو صحیح بنیادوں پر باقی رکھنے کے لیے تقابلی مزہب سے زیادہ مفید اور موثر کوئی ڈسپلن نہیں ہو سکتا۔

Saturday, November 16, 2013

تقبالی مطالعہ مزاہب-8

کوئی مزہب ایسا نہیں جس میں پروہتوں، پنڈتوں، ملاؤںاور پادریوں کی  اجارہ داری کسی نہ کسی درجہ میں موجود نہ ہو۔ جہاں پروہتوں کی گنجائیش نہیں بھی تھی وہاں پیدا کر لی گئی ہے۔ ہر مزہب اس پریشانی کا جواب دینا چاہتا ہے کہ مرنے کے بعد کیا ہوگا؟ خواہ وہ یہی کہے کہ کچھ نہیں ہوگا لیکن اس سوال کا کانٹا تو ہر ذہن میں کھٹکتا ہے۔ پھر یہ کہ اخلاقیات کو کسی مزہب میں بنیادی پتھر کی حیثیت حاصل ہے اور کہیں اسے بالکل بے دخل کر دیا گیا ہے۔ اسی طرح فلسفہ بھی ہر مزہبی فکر میں جزو لازمی ہے۔ کہیں یہ جزو اعظم بن جاتا ہے، جیسےبدھ مت میں اور کہیں صرف چاشنی کے لئے باقی رہ گیا ہے۔
کس مزہب میں بنیادی فکر اور فلسفہ کیا ہے؟ دنیا کی زندگی کے بارے میں وہ کیا کہتا ہے؟ اخلاقیات، عبادات، رسوم و عبادات میں کیا تعلیم دیتا ہے؟ بعد کی زندگی کا کیا نظریہ ہے؟ یہ سب باتیں تقابلی مزہب کا موضوع ہیں۔
ان سب مباحث کو اختصار کے ساتھ یون کہ سکتے ہیں کہ ہر مزہب کو دو معیاروں سے پرکھا جا سکتا ہے۔ وہ انسان اور انسان کے تعلق کو کیسے قائم کرتا ہے اور انسان اور ہستی اعلا (خدا)کے تعلق کو کس طرح ثابت کرتاہے۔
 آج سےایک صدی قبل تک ممالک الگ تھلگ رہ کر زندہ تھےلیکن آج کی دنیا میں ایک دؤسرے پر انحصار نا گزیر ہو گیا ہےاور بین الاقوامی روابط تہزیبی سطح پر بھی اتنے بڑھ چکے ہیں کہ ایک دوسرے کو اچھی طرح جانے بغیر چارہ نہیں ۔ نو آبادیات قائم کرنے والی قوتوں نے دؤسرے مزاہب اور تہزیبوں کا مطالعہ یک طرفہ تھا۔ اب جس طرح کے نظریات اپنا اقتدار قائم کر رہے ہیں، تقابلی مزہب ایک پر امن ، خوشگوار اور باہمی مفاہمت پر مبنی انسانی معاشرہ قائم کرنے میں بہت اچھا رول ادا کر سکتا ہے۔