Thursday, September 26, 2013

تقابلی مطالعہء مزاہب5

تقابلی مزہب کے سلسلے میں ایک اور نام محمد بن عبدالکریم شہرستانی کا ہے جو خراسان کے قصبہ شہرستان میں 469 ہجری میں پیدا ہوا اور 547ہجری/1153 عیسوی میں اسکی 
وفات ہوئی۔
اس نے 521 ہجری/1127 عیسوی میں اپنی شہرءآفاق کتاب الملل و النحل لکھی مگر اس نے یہ دیکھا ہے کہ کون کون سے مزاہب اسلام کے بنیادی عقائد سے ہٹے ہوئے ہیں اور  کون اس سے قریب ہیں۔
اس نے اپنی کتاب میں پہلے اسلامی فرقوں کا حال لکھا ہے، پھر اہلِ کتاب یعنی عیسائی اور یہودی مزاہب سے بحث کی ہے۔
تیسرے حصے میں وہ مزاہب ہیں جن کی الہامی کتابیں مشکوک ہیں۔
وہ عہدِ قدیم کی مظاہر پرستی کے بعد یونانی حکما کے فلسفوں پر بھی علاحدہ علاحدہ بحث کرتا ہے۔ اس مطالعے میں اس کا رویہ اگر غیر جانب دارانہ نہیں تو اسے معاندانہ بھی نہیں کہا جا سکتا لیکن وہ ابن حزم کے مقابلے میں یقیناً نرم تنقید کرتا 
ہے۔
 شہرستانی نے اپنی کتاب کے آخر میں ہندوستانی مزہب سے بھی بحث کی ہے لکین بدھ مت کے بارے زیادہ لکھا ہے۔
دوسرے مزاہب دی معلومات شاید اسے نہ مل سکی ہوں، ان سے وہ سرسری گزر جاتا ہے۔
ہندوستان میں بھی قدیم علما نے اس موضوع پر کچھ کام کئے ہیں۔ ان میں ہم تین کتابوں کا خاص طور سے ذکر کر سکتے ہیں۔ ایک دبستان مزاہب جسے محسن فانی کشمیری سے منسوب کیا جاتا ہے لیکن صحیح یہ ہے کہ کیخسرو اسفندیار   کی تالیف ہے۔
دوسری کتاب داراشکوہ کی مجمع البحرین ہے جس میں تصوف اسلامی اور ویدانت کا تقابل بڑے عالمانہ اور فلسفانہ انداز میں کیا گیا ہے۔ تقابلی مزہب کے موضوع پر ہندوستان میں اس سے اچھی کتاب شاید ہی کوئی لکھی گئی ہو۔
اٹھارھویں صدی کے آخر میں محمد حسن قتیل کی ہفت تماشا بھی ہندوستانی مزاہب اور فرقوں کو سمجھنے کی ایک اچھی کوشش ہے۔ اس صدی میں تو بہت سے اعلی درجے کےکام ہوئے ہیں جن میں ڈاکٹر تارا چند، ایم ۔این رائے اور پنڈت سندرلال کی کوششیں خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔

Sunday, September 22, 2013

تقابلی مطالعہ مزاہب4

تقابلی مزہب میں تیسرا نام ابن حزم اندلسی کا لیا جا سکتا ہےجو ٩٩٤ عیسوی میں پیدا ہوا اور ١٥ اگست ١٠٦٤ عیسوی کو وفات پا گیا۔
اس کے پردادا نے عیسائیت سے اسلام قبول کیا تھا۔ ابن حزم کی تصانیف میں کتاب الفصل فی الملل و الاھواوالنحل بھی ہے لیکن ہم اسے تقابلی مزہب کی کتاب نہیں کہ سکتے۔
اس کے دو سبب ہیں :ایک تو یہ کتاب سخت لب و لہجہ میں لکھی گئی ہے۔ دوسرے مزاہب کے فکری اور فلسفیانہ تضادات کو ظاہر کرتی ہے اور اس کا انداز بھی مناظرانہ ہے۔ ابن حزم اپنی کاٹ اور سخت تنقید کے لئے مشہور ہی ہے۔ 
پھر اس نے تمام ادیان عالم سے بحث نہیں کی ہے بلکہ سامی مزاہب اور یونانی افکار کو زیر بحث لایا گیا ہے۔ اس کی یہ کتاب فرانسیسی اور ہسپانوی زبانوں میں بھی ترجمہ ہو چکی ہے۔
اردو میں اس کا ترجمہ عبداللہ العمادی نے کیا تھا جو ١٩٤٥ عیسوی میں تین جلدوں میں حیدرآباد کے دار الترجمہ سے چھپا تھا۔ 

Friday, September 20, 2013

تقابلی مطالعہ مزاہب 3

یہ ہندوستانی مزاہب پر کسی عرب سکالر کی لکھی ہوئی قدیم ترین کتاب رہی ہوگی۔
عباسی وزیر یحیی بن خالد برمکی نے کسی شخص کو ہندوستان بھیجا تھا کہ وہ دواءوں کے لئے کچھ جڑی بوٹیاں لے کر آئے۔ اس نے یہاں اپنی سیاحت کے زمانے میں ہندوستانی مزاہب سے بھی واقفیت حاصل کی، پھر یہ کتاب لکھی۔ ہندوستان کے بہت سے ویدوں اور پنڈتوں کو بھی تیسری صدی ہجری میں عباسی سی خلافت میں بلایا گیا تھا۔
ابن الندیم نے ہندوستان کے قدیم بت خانوں کا کچھ حال اسی کتاب میں لکھا ہے۔ وہ بدھ مت اور اس کی عبادت گاہوں کے بارے میں بھی ہمیں بتاتا ہے۔
اس کی یہ کتاب 377 ہجری میں تیار ہو چکی تھی۔
دوسری عظیم شخصیت ابو ریحان البیرونی کی ہے جو اپنے زمانے میں نابغہ روزگار ہوا ہے۔
وہ 363 ہجری /974 ء میں پیدا ہوا اور 440 ہجری/1048 ء میں اس کا انتقال ہوا۔
البیرونی ہندوستان آیا۔  یہاں اس نے پنڈتوں کے ساتھ رہ کر ریاضی، جیوتش،فلسفہ، منطق وغیرہ علوم حاصل کیے اور تحقیق ما للہند جیسی بے مثال کتاب لکھی جس پر ہندوستانی فخر کر سکتے ہیں۔
البیرونی گیتا کا مداح ہے۔ اس نے پہلی بار اس کے طویل اقتباسات کا عربی ترجمہ اپنی کتاب میں شامل کیا۔ وہ تیرہ سال ہندوستان میں رہا اور سنسکرت زبان میں مہارت حاصل کی۔ ہندوءوں کے مزہب، تہزیب و تمدن ، رسوم و رواج اور عقائد توہمات کا گہرا اور ہمدردانہ مطالعہ کر کے اس کے نتائج اس کتاب میں پیش کئے جسے ایڈورڈ زخائو فکری  اعتبار سے دنیا کی بلند پایہ کتابوں میں شمار کرتا ہے۔
البیرونی نے وراہامہرہ کی برہت شمہتا اور لاگھو جاٹم کے علاوہ پاتنجلی کا بھی عربی ترجمہ کیا ۔
ہندوستان کے بارے میں البیرونی نے جو کچھ لکھا ہے، اس کے مقابلہ میں ہیون سانگ، میگستھنیز اور ابن بطوطہ کی کتابیں بچوں کے لیے لکھی ہوئی کتابیں معلوم ہوتی ہیں۔

Tuesday, September 17, 2013

تقابلی مطالعہ مزاہب 2



دنیا کے بڑے مزاہب میں اسلام کے سوا کوئی مزہب ایسا نہیں
 ہے جو تاریخ کی روشنی میں پیدا ہوا ہو۔ اس لیے مزاہب کی تاریخ کا مطالبہ تاریک زمانوں سے شروع ہوتا ہے۔ تاریخی شواہد نہ ہونے کی صورت میں رسوم و عقائد ،طرز زندگی، عبادات، اور معاملات کے گہرے تجرباتی مطالعہ سے ہی نتائج اخذ کیے جا سکتے ہیں۔ اس لیے مزاہب کا مطالعہ بہت سے دوسرے موضوعات کے مطالعہ سے بہت مختلف ہو جاتا ہے۔ اس میں صحیح نتیجے تک پہنچنے کا دار و مدار تجزیہو تحلیل کی صلاحیت پر ہوتا ہے۔
تقابلی مزہب بحث اور تحقیق کا نیا موضوع ہےاس سے پہلے ہمارے علما اس سے واقف نہیں تھے۔ ماضی میں مطالعہ مزہب کا رویہ بھی غیر جانب دارانہ نہیں تھا۔
عموما اپنے ہی مزہب کا مطالعہ اور اسمیں غور و فکر کرتے تھے۔  یا اسکے مختلف فرقوں اور شاخوں کی تفصیل لکھتے تھے۔ دوسرے مزاہب کا ہمدردی کے ساتھ مطالعہ کرنے کی روایت نہیں تھی۔
پھر بھی بعض مسلم علما نے اپنے طور پر تقابلی مزہب کا مقابلہ پیش کیا۔ ان میں سب سے اہم کتاب ابن اندیم (متوفی 385 ہجری) کی الفہرست ہے جس کے مقالہ نہم میں ہندوستانی مزاہب کا حال لکھا گیا ہے۔
اس سے ہم چوتھی صدی کے ہندوستان کا حال جان سکتے ہیں۔
یہ وہ زمانہ ہے جب مسلمان فاتحوں کے قدم اس سرزمین کے شمالی اور وسطی حصوں تک نہیں پہنچے تھے۔
ابن اندیم نے ایک کتاب کا ذکر کیا ہے جو 3 محرم 249 ہجری کو لکھی گئی تھی۔ اس کا نام اس نے ملل الھند و ادیانھا بتایا ہے۔ یعنی ہندوستانی قومیں اور ان کے مزاہب۔
اس کتاب کے مصنف کا نام معلوم نہیں ہو سکا لیکن اس میں کوئی عبارت یعقوب الکندی کی لکھی معلوم ہوتی ہے۔

جاری ہے۔۔۔

Monday, September 16, 2013

تقابلی مطالعہ مزاہب۔۔۔1



پہاڑوں کی کھو سے نکل کر چاند کی خاک چھاننے تک انسان نے ایک طویل سفر کیا لےاور اس سفر کے ہر مرحلے میں وہ کسی نہ کسی شکل میں مزہب کو مانتا رہا ہے اس لیے مزہب کی تاریخ اتنی ہی پرانی ہے جتنی انسان کی زندگی۔ جس طرح ہر قوم اور ہر علاقے کا کلچر مختلف ہےاسی طرح مزہب میں بھی اختلاف ہے۔ بلکہ یون کہا جا سکتا ہے کہ جیسے ایک انسان کی شکل دوسرے سے کلی طور پر نہیں ملتی اسی طرھ ہر شخص کا عقیدہ بھی کچھ نہ کچھ انفرادی خط و خال رکھتا ہے۔
اس لیے ہم خواہ انسان کی تہزیبی اور معاشرتی زندگی کا مطالعہ کریں یا کسی کی شخصیت اور سیرت و کردار کو موضوع بحث بنائیں دونوں صورتوں میں مزہب اور عقیدت کو نظرانداز نہیں کر سکتے۔
مزہب اور عقیدے کی طویل اور پیچیدہ تاریخ کا مطالعہ اگر گہری نظر اور ٹھنڈے دل و دماغ کے ساتھ کیا جائے تو ہم بنی نوع انسان کی روح کو کھوج سکتے ہیں۔ می
انسان نے ایک طویل جد و جہد کی ہے۔ وہ فطرت کے مظاہر سے خوف زدہ بھی رہا ہے۔ ان سے لڑا بھی ہے اور ان پر فتح یاب بھی ہوا ہے۔
اس نے اپنے تحفظ کے لیے جتنی پناہ گاہیں بنائی ہیں اور جتنی مادی اور غیر مادی قوتیں زندگی کو آفات سے بچانے کے لئے پیدا کی ہیں ان میں سب سے زیادہ قوی پر اثر اور دیر پا قوت عقیدہ ہی ہے۔
یہی سبب ہے کہ انسان نے سب سے زیادہ قربانیاں عقیدے کے لیے دی ہیں۔
اگر یہ ڈور اس کے ہاتھ سے نکل جاتی تو وہ اپنے گرد و پیش کی بے رحم طاقتوں کا شکار ہو گیا ہوتا اور آج زمین پر اس کا وجود ہوتا بھی تو اشرف المخلوقات کی صورت میں نہ ہوتا۔
اس لیے مزہب اور عقیدے کا مطالعہ نوع انسان کی تنظیمی قوت اور بقا کی جد و جہد میں اس کے ثبات اور استقامت کا مطالعہ ہے۔اس مطالعہ کے ضمن میں تاریخ جغرافیہ فلسفہ فنون لطیفہ اور سائنس تک سبھی شعبہ ہاےعلوم سے مدد ملتی ہے۔
اس لئے انسانی علوم کی کوئی شاخ ایسی نہیں ہے جس پر مزہب اثرانداز نہ ہوا ہو۔۔۔۔
جاری ہے۔