Friday, September 20, 2013

تقابلی مطالعہ مزاہب 3

یہ ہندوستانی مزاہب پر کسی عرب سکالر کی لکھی ہوئی قدیم ترین کتاب رہی ہوگی۔
عباسی وزیر یحیی بن خالد برمکی نے کسی شخص کو ہندوستان بھیجا تھا کہ وہ دواءوں کے لئے کچھ جڑی بوٹیاں لے کر آئے۔ اس نے یہاں اپنی سیاحت کے زمانے میں ہندوستانی مزاہب سے بھی واقفیت حاصل کی، پھر یہ کتاب لکھی۔ ہندوستان کے بہت سے ویدوں اور پنڈتوں کو بھی تیسری صدی ہجری میں عباسی سی خلافت میں بلایا گیا تھا۔
ابن الندیم نے ہندوستان کے قدیم بت خانوں کا کچھ حال اسی کتاب میں لکھا ہے۔ وہ بدھ مت اور اس کی عبادت گاہوں کے بارے میں بھی ہمیں بتاتا ہے۔
اس کی یہ کتاب 377 ہجری میں تیار ہو چکی تھی۔
دوسری عظیم شخصیت ابو ریحان البیرونی کی ہے جو اپنے زمانے میں نابغہ روزگار ہوا ہے۔
وہ 363 ہجری /974 ء میں پیدا ہوا اور 440 ہجری/1048 ء میں اس کا انتقال ہوا۔
البیرونی ہندوستان آیا۔  یہاں اس نے پنڈتوں کے ساتھ رہ کر ریاضی، جیوتش،فلسفہ، منطق وغیرہ علوم حاصل کیے اور تحقیق ما للہند جیسی بے مثال کتاب لکھی جس پر ہندوستانی فخر کر سکتے ہیں۔
البیرونی گیتا کا مداح ہے۔ اس نے پہلی بار اس کے طویل اقتباسات کا عربی ترجمہ اپنی کتاب میں شامل کیا۔ وہ تیرہ سال ہندوستان میں رہا اور سنسکرت زبان میں مہارت حاصل کی۔ ہندوءوں کے مزہب، تہزیب و تمدن ، رسوم و رواج اور عقائد توہمات کا گہرا اور ہمدردانہ مطالعہ کر کے اس کے نتائج اس کتاب میں پیش کئے جسے ایڈورڈ زخائو فکری  اعتبار سے دنیا کی بلند پایہ کتابوں میں شمار کرتا ہے۔
البیرونی نے وراہامہرہ کی برہت شمہتا اور لاگھو جاٹم کے علاوہ پاتنجلی کا بھی عربی ترجمہ کیا ۔
ہندوستان کے بارے میں البیرونی نے جو کچھ لکھا ہے، اس کے مقابلہ میں ہیون سانگ، میگستھنیز اور ابن بطوطہ کی کتابیں بچوں کے لیے لکھی ہوئی کتابیں معلوم ہوتی ہیں۔

No comments:

Post a Comment