Saturday, June 22, 2013

جدید سائنس اور اسکا مقصد وجود 6

اسلام کا نظریہء حیات و کائنات اس کی اجازت نہیں دیتا کہ طبیعیات کو ما بعد الطبیعیات سے یا دوسرے لفظوں میں مادے کو روح سے علاحدہ کرکے دیکھا جائے۔ علم کی غایت عرفان  ہے اور انسان کی حد تک عرفان کی منزل اعلا عرفان نفس ہے۔ اس کا مظہر خشیت ہے اور خشیت قساوت قلبی کی ضد ہے۔ آج انسانی معاشرے میں جو قساوت نظر آ رہی ہے اس کا سبب یہی ہے کہ جدید صنعتی و سائنسی معاشرت سےخوف خدا رخصت ہو گیا ہے۔  اسلامی نظریہ سے اگر سائنس کا استعمال کیا جاتا تو وہ خشیت پیدا کرتا۔ 
 انما یخشی اللہ من عبادہ العلماءُ  کا یہی مفہوم ہے اور بعض مفسرین ایک قراۃ یوں بھی کرتے ہیں انما یخشی اللہ من عبادہ   العلماءَ  یعنی اللہ اپنے بندوں میں سب سے زیادہ علما کا لحاظ کرتا ہے۔
اسلام کے پاس ایک بہت قیمتی سرمایہ ہے جسے چھوڑ کر وہ کچھ بھی نہیں رہ جاتا۔ وہ ہے نظریہءآخرت۔ یا  بعث بعد الموت۔ اس کی بنیاد یہ ہے کہ وہ زندگی میں کسی مقصد یا غایت پر یقین رکھتا ہے۔ اعمال کا حساب اسی کو دینا ہوگا جو کسی کا م پر معمور کیا گیا ہو۔  مغربی مادی تہذیب نہ زندگی کا کوئی مقصد سمجھتی ہے نہ غایت۔  اس لیے اس کے یہاں کوئی حساب کتاب بھی نہیں ہے۔ وہ تو کائنات کو اتفاقات کا ایک لا متناہی سلسلہ مانتی ہے۔ کیچڑ میں رینگنے والا کیڑا اور خلا تک جانے والا انسان زندگی میں دونوں برابر کے شریک ہیں۔ رینگتے ہوئے کیڑے ترقی کرکے پرندے اور چوپائے بن گئے۔ چوپایوں میں سے ایک قسم بندر بن گئی دوسری انسان۔ ہر جاندار اپنے ماحول میں خود کو ڈھالنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اور بقا کے لئے مسلسل جد جہد میں لگا ہوا ہے۔ اس نظریہ کی رو سے انسان کا خود کو اشرف المخلوقات کہنا اپنے منہ میاں مٹھو بننا ہے۔ انسان سے زیادہ جہد للبقا میں کامیاب وہ رینگنے والے کیڑے ہیں جو کروڑوں برس سے ایک سی حالت مین زندہ ہیں۔ خواہ کیچڑ میں پڑے ہیں۔ مگر انسان سے زیادہ مطمئن ہیں۔ مغربی نظریہ حیات میں انسان ایک بے دم کا لنگور ہے۔ جو ایک بے مقصد زندگی گزارنے کے لئےاسی طرح پیدا ہوا ہے جیسے مکھی مچھر جھینگے اور کیچوے پیدا ہوئے ہیں۔  اشرفیت اور افضلیت کہاں سے آ گئی؟ جب جہد للبقا مین سب برابر ہو گئے جو احترام انسانیت کا نظریہ بھی باطل ہو گیا۔ 
مگر قرآن کریم بار بار عظمت انسانیت کا نعرہ بلند کر رہا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ زندگی ایک اتفاقی عمل نہیں ہے۔ اس کا کوئی عامل ہے جو خالق ہے ۔ رب ہے۔ رازق ہے۔۔ محی ہے ۔ ممیت ہے۔ قاہر ہے۔ قادر ہے۔۔۔وغیرہ۔
اس نے انسان کو کسی مقصد سے پیدا کیا ہے۔ 
افحسبتم انما خلقنکم عبثا و انکم الینا لا ترجعون 95-4
وہ زندگی کے اعمال کا حساب لیگا ۔ اس نے انسان کو شرف و کرامت کے ساتھ پیدا کیا ہے۔ 
 و لقد کرمنا بنی آدم 17-70
اسے اپنے اوصاف سے متصف کیا ہے۔
و نفخت فیہ من روحی۔ 15-29
اور دوسری مخلوقات کے مقابلے میں بہترین قوام سے انسان کو اٹھایا ہے۔
لقد خلقنا الانسان فی احسن تقویم۔ 95-4

Thursday, June 20, 2013

جدید سائنس اور اسکا مقصد وجود 5

اسلام ترقی علوم کے خلاف نہیں تھا، اسی لئے عہد عباسی میں دار الحکمۃ قائم ہوا۔ سنسکرت اور یونانی اور فارسی سے طب، فلسفہ اور منطق کی کتابوں کے تراجم ہونے لگے۔ سائنس کی ترقی سے اسلام کو کوئی خطرہ نہیں تھا، اس لیے کہ قرآن نے خود بار بار دعوت دی ہے کہ   اپنے نفس میں غور کرو 'و فی انفسکم افلا تبصرون 21-51- مظاہر کائنات میں غور و تدبر سے کام لو۔ افلا ینظرون الی الابل کیف خلقت۔ و الی السماء کیف رفعت 18,17.88۔ پھر اس پر غور کرو کہ جو شے عدم سے وجود میں آئی ہے کیا وہ پھر وجود سے عدم میں نہ جائےگی اور جو اسے ایک بار لباس وجود دے سکتا ہے کیا اسے یہ قدرت حاصل نہیں ہے کہ وہ بوسیدہ ہڈیوں میں پھر جان ڈال دے۔
غرض تفکر فی الکائنات اور حکمت تکوین میں تامل و تدبر قرآن کی اساسی تعلیم ہے۔ جتنا کائنات کے اسرار سے پردے اٹھاتے جاؤگے اللہ کا خوف اپنے دل میں زیادہ پاؤگے۔ انما یخشی اللہ من عبادہ العلماء
عیسائیت نے سائنس کی مخالفت اس لئے کی تھی کہ وہ اسلام کی طرح حکمت تکوینی میں غور کرنے کی دعوت نہیں دیتی تھی۔ اسے اپنی بنیادیں متزلزل ہوتی نظر آئیں تو اس نے سائنس کی مخالفت میں محاذ قائم کر لیا اور چونکہ اس کی بنیاد عقلیت پسندی پر نہیں تھی، اسلئے سائنس سے اسے شکست کھانی پڑی۔ آخر سمجھوتہ اس پر ہوا کہ علوم طبیعیات سے  خدا کو بے دخل کر دیا جائے۔ تم اپنے گھر خوش ہم اپنے گھر خوش۔
اسلام نے کبھی عقلیت کی نفی نہیں کی اور طبیعیات و ما بعد الطبیعیات کے رشتے کو جورے رکھا۔ اس کی بہتریں مثال یہ واقعہ ہے کہ جب حضرت ابراہیم بن محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا انتقال ہوا، اتفاق سے اسی دن سورج گہن بھی ہو گیا۔ لوگوں نے کہنا شروع کیا کہ یہ ابراہیم کی وفات کے باعث ہوا ہے، صدمے سے سورج کا کلیجہ بھی شق ہو گیا۔ ایک بے پڑھی لکھی قوم کے عقیدت مندوں کو اس عقیدے پر اور بھی راسخ کر دینا کچھ دشوار نہ تھا۔ ادنا درجہ یہ تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اس موقعہ پر خاموش رہتے، نہ ان کی تائید کرتے نہ تردید۔ مگر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: ایھا الناس ان الشمس و القمر ایتان من ایات اللہ لا ینکسفان لموت احد ولا لحیاۃ احد فاذا رایتم ذالک فافزعوا الی المساجد----- و دمعت عیناہ۔ (بخاری، مسلم، مسند احمد، الدارمی)
لوگوں چاند سورج اللہ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں۔ یہ کسی کی موت یا زندگی پر نہیں گہناتے، جب تم ایسا دیکھو تو مسجدوں میں جاؤ (عبادت کرو)۔۔۔۔۔ یہ کہتے ہوئے آپ کی آنکھیں ڈبڈبا گئیں۔
اس روایت میں بھی فافزعوا الی المساجد کے الفاظ طبیعیات و ما بعد طبیعیات کے رشتے  
 کی گواہی دے رہے ہیں۔ مسلمان کبھی علوم سے بدکے نہیں۔ یونانی فلسفے کے عربی تراجم نے بہت سے عقائد پر کاری ضرب لگائی اور علما کو لا یعنی بحثوں میں الجھا لیا، تب بھی انھوں نے یونانی علوم پر اپنا دروازہ بند نہیں کیابلکہ ان فلسفیوں کے نظریات کو تحقیق کی کسوٹی پر پرکھااور یونانی فلسفیوں کو مجبور کر دیا کہ وہ افلاطونی نظریات پر نظر ثانی کریں۔ یونانی فلسفہ عقیدے کی جڑ کاٹتا تھا، مسلمان علما نے اس کا مقابلہ کرنے کے لیے 'علم الکلام' ایجاد کیا، جو عقیدے کے اثبات کے ساتھ حیات و کائنات کے مسائل پر بحث کر سکتا ہے۔

جدید سائنس اور اسکا مقصد وجود 4

جدید اصطلاح میں علم سائنس ہی کو کہتے ہیں۔ اس سے یہ سمجھنا غلط ہوگا کہ علم کے بارے میں جو کچھ کہا جا رہا ہے وہ صرف علم دین کی حد تک محدود ہے۔ علماے قدیم نے تمام علوم کو سمیٹ کر دو خانوں میں بانٹ دیا: ایک کو وہ 'منقول' کہتے ہیں جس کا تعلق تاریخی شعور سے ہے۔ دوسرے کو 'معقول' کہا جاتا ہے جس کی بنیاد عقلیت پسندی پر ہے۔
مشہور مقولہ ہے : 'العلم علمان علم الادیان و علم الابدان'۔ یعنی علم کی دو قسمیں ہیں فزکس اور میٹا فزکس۔ ان میں سے کسی کو کمتربتایا گیا ہے ، نہ ایک کو دوسرے پر ترجیح دی گئی ہے۔ لیکن اسلامی سائنٹفک نظریہ یہی ہے کہ علم کی ان دونوں شاخوں کو ایک وحدت کے روپ میں دیکھا جائے، نہ ان کو ایک دوسرے سے بیگانہ سمجھا جائے، نہ ان میں سے کسی کی نفی کی جائے۔ مغربی سائنسی فکر نے فزکس اور میٹا فزکس کے درمیان ایک دیوار کھڑی کر دی جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مذہبی عقائد سے عقلیت معدوم ہو گئی اور سائنس عقیدے سے محروم ہو گئی۔ ریاضی اور الجبرا میں بال کی کھال کھینچنے والی قوم آج بھی تثلیث میں وحدت پر ایمان رکھتی ہے، چاہے ریاضی لاکھ سر پٹکے کہ تیں ایک اور ایک تین کیسے ہو سکتے ہیں، مگر انھوں نے بنا کر دکھا دیا۔
اسلام میں بالکل ابتدا ہی سے حفظ روایات کا اہتمام ہوا، پھر تدوین و تحقیق شروع ہو گئی، اور اصول و کلیات وضع ہونے لگے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ابو الاسود الدؤلی کو عربی زبان کی قواعد لکھنے پر معمور کیا تو یہ کوئی معمولی کارنامہ نہیں تھا۔ عھد بنی امیہ کے آغاز ہی میں علم الکیمیا خاصی ترقی کر چکا تھا۔ یزید ابی سفیان کو کیمیا سازی کا شوق تھا اور کشتے پھونکنے کے لئے اس 
نے متعدد قسم کے تیزاب ایجاد کر لئے تھے۔



    

Saturday, June 15, 2013

جدید سائنس اور اس کا مقصد وجود 3

اس تاریخی شعور کا فطری اقتضا یہ تھا کہ ایک واضع سماجی شعور بھی پیدا ہو۔ اس کا اندازہ اسلام کے سماجی قوانین کو دیکھ کر کیا جا سکتا ہے۔ حضرت عمر فارؤق رضی اللہ عنہ نے اپنے عہد خلافت میں جو اصلاحات نافذ کیں وہ ایک نہایت 
ترقی یافتہ سماجی شعور کا پتہ دیتی ہیں۔ انھوں نے اعلان کیا
و للہ لئن بقیت الی ھذہ العام المقبل لا لحقن آخر الناس 
باولھم و لاجعلنھم رجلا واحدا
خدا کی قسم اگر میں آنے والے سال تک زندہ رہ گیا تو آخری آدمی کو پہلے سے ملا دونگا اور تمام انسانوں کو ایک جیسا بنا کر چھوڑونگا۔
دوسرے موقعہ پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا 
وللہ لئن سلمنی اللہ لادعن ارامل اھل العراق لا یحتجن الی احد من بعدی ابدا
خدا کی قسم اگر اللہ نے مجھے سلامت رکھا تو عراق کی بیواؤں کو اس حالت میں چھوڑوں گا کہ وہ میرے بعد ہر گز  کسی کی دست نگر نہ رہیں۔
عہد حاضر کےنظام ہائے حیات میں سماجی تحفظ   کی اس سے زیادہ کون سی 
ضمانت دی گئی ہے؟  
تاریخی اور سماجی  شعور کسی قوم میں اتنا ترقی یافتہ ہو اور سائنسی شعور  موجود نہ ہو یہ ممکن ہی نہیں ہے۔ اس لیے اسلام اپنے سیاسی انتشار کے دور میں بھی کبھی عقلیت اور سائنس کا حریف نہیں رہا ۔ قرآن کریم کی پہلی وحی کا پہلا لفظ اقراء ہے۔ یعنی پڑھ۔ مگر اس کے آگے وہ بات ہے جو جدید مغربی سائنسی فکر کو نہیں بھاتی۔ یعنی اسم ربک الذی خلق یہیں سے اسلامی مذہبی فکر اور مغربی  سائنسی فکر کا اختلاف شروع ہو جاتا ہے اور یہ فاصلہ بڑھتے 
بڑھتے بعد المشرقین میں تبدیل ہو جاتا ہے۔
ہمارے قدیم علما اور مفسرین بھی جب اولیات تخلیق سے بحث کرتے ہیں تو کہتے ہیں کہ اللہ نے سب سے پہلے قلم کو پیدا کیا۔ قرآن قلم کی حرمت کی قسم کھاتا ہے ن والقلم و ما یسطرون (1-68) اور قلم کو وسیلئہ علم سمجھتا ہے۔ علم بالقلم  (4-96) اور علم وہ ہے جو سن سے پہلے آدم علیہ السلام کو ودیعت کیا گیا اور جو اس کے لیے اشرف المخلوقات ہونے کا سبب بنا۔ و علم آدم الاسماء کلھا (31-2) یہ تعلیم خود مبداء فیاض سے ملی تھی، اسلئے انسان کو ملائکہ سے بھی افضل قرار دیا گیا اور کہا کہ انی اعم ما لا تعلمون (30-2) دوسرے مذاہب میں طاقت کے مختلف مظاہر کو دیوتا کہا جاتا ہے اور انسان سے یہ مطالبہ کیا جاتا ہے کہ وہ ان کو سجدہ کرے۔ یہاں فرشتوں کو (جو بمنزلہ دیوتا ہیں اور لفظ ایل بمعنی الہ جن کے نام کا جزو ہے) حکم دیا جاتا ہے کہ انسان کے سامنے سجدہ ریز ہوں۔  
و اذ قلنا للملائکۃ اسجدو لآدم فسجدو الآ ابلیس۔ ابی واستکبر و کان من الکافرین۔ (34-2) ابلیس نے سجدہ کرنے سے انکار کیا، یعنی وہ فرشتوں کو انسان سے افضل ماننے والوں میں سے تھا، اس لیے اسے ابد تک کے لیے مظہر شر و فساد قرار دے دیا گیا۔ اس لیے کہ خیر و اصلاح انسانی عظمت کا اعتراف کرنے ہی میں ہے اس سے زیادہ عقی اور سائنسی رویہ کیا ہو سکتا ہے؟ علم چوں کہ شرف انسانیت ہےاس لیے اس کا احترام بھی واجب قرار دیا گیا۔یعنی ادنا درجہ یہ ہے کہاگر خود علم حاصل نہ کر سکے تو علما سے محبت اور ان کا احترام کرے- اور علم کے پانچ مدارج مقرر کیے:
اول العلم الصمت و ثانی الاستماع و الثالث الحفظ و الرابع العمل الخامس نشرہ۔

                                    

Friday, June 14, 2013

جدید سائنس اور اس کا مقصد وجود 2

نظریہء آخرت کو بھی عقل اور منطق کی روشنی میں پرکھا جا سکتا ہے۔ اسے کے سوا معاملات اور معاش کے جتنے احکام ہیں وہ خالصۃ عقل پر مبنی ہیں۔ اسلام واحد مذہب ہے جو تاریخ کی روشنی میں پیدا ہوا ہے۔ جس کے رسول صلی علیہ و سلم کی زندگی اور افعال و اقوال کو محفوظ رکھا ہے۔ جس کے رسول پر نازل ہونے والی کتاب تحریف سے پاک ہے اور جس مذہب کے پیروؤں نے ہر دور میں تاریخی شعور کا ثبوت دیا ہے۔تاریخی شعور عقلیت کی نفی کے ساتھ نہیں رہ سکتا ۔ اس لئے ہم کہ سکتے ہیں کہ مذہب اسلام میں وہ عقیت پسندی موجود ہے جو سائنس کی نشوو ارتقا کے لیے شرط اول 
قدم ہے۔
اسلام کا تاریخی شعور اس امر سے ظاہر ہے کہ ابتدا ہی سے مسمانوں نے تاریخی وقائع کو محفوظ رکھنے کا اہتمام کیا اور   اسے اصول شہادت کی بنیاد پر فراہم کیا۔ ان روایات کے ساڑھے پانچ لاکھ ناقلین کے حالات نقد و تحلیل کے ساتھ جمع کئے اور متضاد روایات کو پرکھنے کے لیے علم الاصول وضع کیا۔ اسلام کی زندگی کے ایک ہزار برسوں میں جتنا تاریخی سرمایہ ہمیں ملتا ہے وہ دنیا کے کسی دوسرے بڑے مذہب کو نصیب نہیں ہو سکا۔

Thursday, June 13, 2013

جدید سائنس اور اسکا مقصد وجود 1



سائنس کو مذہب کا حریف سمجھا جاتا ہے لیکن یہ محض غلط فہمی ہے۔ دونوں کا دائرہء کاربالکل مختلف ہے۔ اس صدی میں قرآن مجید کے بہت سے بیانات کو سائنس اور تاریخ کی کسوٹی پر پرکھنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اگرچہ ابھی تک سائنس یا تاریخ نے قرآن کے کسی بیان کو جھٹلانے میں کامیابی حاصل نہیں کی ہے، لیکن بالفرض اگر ایسی کوئی صورت سامنے آتی بھی ہے تو بھی اسے قطعیت حاصل نہیں ہوتی۔ وہ محض تحقیق کی ایک منزل ہوتی ہے اور اسکا امکان باقی رہتا ہے کہ تحقیق مزید ہمیں اسی منزل تک پہنچا دےجس کی طرف قرآن اپنی مخصوص بلیغ زبان میں اشارہ کر رہا ہے۔ 

مذہب کا مقصد شرف انسانیت کا اثبات اور تحفظ ہے۔ وہ انسان کامل کا نمونہ پیش کرتا ہے۔ سائنس کے دائرہءکار میں یہ باتیں نہیں ہیں نا ہی کوئی بڑے سے بڑا سائنسدان انسان کامل کہانے کا مستحق ہو سکتا ہے۔ اس لئے مذہب اور سائنس کا تصادم محض فرضی اور خیالی ہے۔ اور اس کا سبب یہ ہے کہ مذہبی عقائد کی بنیاد عموما عقل اور منطق پر نہیں ہے۔ اس میں بڑا حصہ ایمان بالغیب یا توہمات یا اساطیر کا بھی پایا جاتا ہے ۔اسلام نے ایمان بالغیب کو باقی رکھا ہے کیوں کہ یہی نظریہءآخرت کی بنیاد بن سکتا 
ہے مگر توہمات اور اساطیر کو بالکل بے دخل کر دیا ہے۔

جاری ہے۔۔۔  

Friday, June 7, 2013

ڈاکٹر نثار احمد فارؤقی کا خاندانی پس منظرـ جنید اکرم فارؤقی

 ڈاکٹر نثار احمد فارؤقی شمالی ہند کی پر فضا اور مردم خیز بستی  امروہہ کے ایک علمی اور مذہبی خانوادے کے چشم و چراغ ہیں۔ ان کے خاندان میں علم و عرفان کی روایات صدیوں پرانی ہیں۔ روحانی سرمائے کے ساتھ ساتھ دنیاوی تمول اور اعزاز بھی موروثی رہا ہے۔ اس خاندان سعادت نشان میں میدان علم و آگہی کے یلہ تاز بھی ملیں گے۔  اور اکثر مناصب جلیلیہ پرسرافراز بھی۔ قرون سابقہ میں عوام سے خراج عقیدت حاصل کرنے والےمملکت فقر و درویشی کے تاجدار بھی ہیں اور اپنے مواضعات و معافیات میں رعیت سے باج اراضی وصول کرتے ہؤئے شہ سوار بھی۔ صاحبان استغنا بھی ہیں اور والیان غنا بھی۔ دینی اور دنیوی دونوں اعتبار سےاس خانوادے کو شان امتیاز و اقتدار حاصل رہی۔ 
ڈاکٹر  نثار احمد فارؤقی کا سلسلئہ نسب بواسطہ شیخ الاسلام حضرت بابا فرید شکر گنج رحمتہ اللہ علیہ خلیفہ دوم امیر المؤمنین سیدنا حضرت عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ سے متصل ہوتا ہے۔ بایں طریق  

 ؒڈاکٹر نثار احمد فاروقی
  1.   ؒبن مولوی تسلیم احمد
  2.  ؒبن مولوی حسین احمد
  3.  ؒبن ڈپٹی بشیر احمد فارؤقی
  4.  ؒبن چودھری ابدال محمد
  5.  ؒبن منشی اولاد محمد
  6.  ؒبن چودھری عبدالغفور ثانی
  7.  ؒبن چودھری محمد حارث
  8.  ؒبن چودھری شہاب الدین
  9.  ؒبن چودھری بدر عالم
  10.  ؒبن شیخ زادہ محمد معمور
  11.  ؒ بن حضرت حاجی عبد الغفور
  12.  ؒبن محمد مظفر
  13.  ؒبن شیخ محمد صلاح
  14.  ؒبن محمد صادق عرف شیخ مجاہد
  15.  ؒبن شیخ زادہ محمد طاہر فاروقی 
  16.  ؒبن حضرت حاجی موسی
  17.  ؒبن خواجہ ضیاالدین
  18.  ؒبن خواجہ بہاالدین معروف بہ بابا فرید
  19.  ؒبن خواجہ مجیر الدین
  20.  ؒ بن شیخ سالار
  21.   ؒبن شیخ علی
  22.  ؒبن شیخ نظام الدین شہید
  23. بن حضرت بابا فرید الدین مسعود شکر گنج فاروقی رحمۃ للہ علیہ
  24.  ؒبن قاضی جمال الدین سلیمان
  25.  ؒبن قاضی شعیب 
  26.  ؒبن شیخ احمد یوسف شہید
  27.  ؒبن شیخ شہاب الدین احمد فرخ شاہ کابلی
  28.  ؒبن نصیر الدین محمود
  29.  ؒبن اسحاق معروف بہ سلیمان شاہ
  30.  ؒبن مسعود
  31.  ؒبن عبدللہ معروف بہ واعظ الاصغر
  32.  ؒبن شیخ ابو الفتح معروف بہ واعظ الاکبر
  33.  ؒبن اسحاق
  34.  ؒبن ابراہیم
  35.  ؒبن ناصر
  36.  ؒبن عبدللہ
  37.  ؒبن عمر 
  38.  ؒبن حفص
  39.  ؒبن عاصم
  40.  ؒبن عبدللہ
  41. بن سیدنا عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ



Seerat e Tayyiba 6

۔۔۔اسی طرح ابنِ سعد نے ایک فصل میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے دونوں کاندھوں کے درمیان مُہرِ نبوت کے بارے میں روایات دی ہیں۔ آپ کے بالوں کے بارے میں جو روایات ملتی ہیں انہیں جمع کر دیا ہے۔ اور آپ کے سرِ مبارک اور ریشِ مقدس میں جو سفید بال تھے ان کا وصف جداگانہ فصل میں بیان ہوا ہے۔
آپ کو سفید لباس پسند تھا۔ کبھی سرخ جوڑا بھی زیبِ تن فرماتے تھے۔ آپ کے پاس ہاتھی دانت کی ایک کنگھی بھی تھی جس سے بالوں کو سنوارتے تھے۔
ابن سعد نے آپ کی تلواروں ،زرہ بکتر، ڈھال، نیزے، خچر، گھوڑے، اور اونٹوں کے لئیے بھی علیحدہ علیحدہ باب رکھے ہیں۔
اسکے بعد رسول اللہ کے گھروں اور حجروں کا بیان ہوا ہے۔ آں حضرت کے نو گھر اور حجرے تھے۔ ان میں ازواج مطھرات رہتی تھیں، یہ گارے اور پکی اینٹوں سے بنائے گئے تھے۔
الطبقات الکبیر کی دوسری جلد میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے غزوات و سرایا کا بیان ہوا ہے۔ پہلے ابن سعد نے اس سے بحث کی ہے کہ کل مغازی کی تعداد کتنی ہے، یہ 37-47 تک بتائی گئی ہے۔ پھر ہر غزوہ اور سریہ کے نام سے بحث کی ہے، ان کا زمانہ وقوع کیا تھا اور اس میں کیا پیش آیا تھا۔
ابن سعد نے بتایا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے چار عمرے کئے اور ہر عمرہ ماہ ذی قعد میں کیا۔ آپ نے صرف ایک ہی حج کیا۔ یہ پہلا اور آخری حج تھا۔ 25 ،ذی قعد کو آپ مدینہ سے بر آمد ہوئے۔ تمام ازواج مطھرات بھی ساتھ تھیں۔ اس موقعہ پر آپ نے خطبہء حجہ الوداع ارشاد فرمایا جس کا متن ابن سعد نے مختلف روایتوں سے دیا ہے۔ بیت اللہ کا طواف آپ نے اپنی اونٹنی پر بیٹھ کر کیا۔ چاہِ زمزم کے پاس پہنچ کر ڈول سے پانی نکالا۔ اسے نوش فرمایا اور باقی پانی میں اپنا لعابِ دہن شامل کرکے کنویں میں واپس ڈال دیا۔
ابن سعد نے حدیث قرطاس بھی تفصیل سے بیان کی ہے۔ ابن عباس نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جمعرات کو بیمار ہوئے تھے۔
حضرت عائشہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے مرض الموت میں حضرت فاطمہ زہرہ رسول اللہ کی سی چال چلتی ہوئی تشریف لائیں۔ آپ نے انھیں اپنے دائیں یا بائیں پہلو کی طرف بٹھایا اور سرگوشی میں کچھ فرمایا تو حضرت فاطمہ رونے لگیں، پھر آپ نے کچھ فرمایا تو فوراً وہ ہنسنے لگیں۔ حضرت عائشہ نے پوچھا کہ رسول اللہ
نے کیا فرمایا تو حضرت فاطمہ نے فرمایا کہ یہ راز کی بات ہے میں نہیں بتاونگی۔ بعد میں انہوں نے بتایا کہ رسول اللہ نے فرمایا تھا کہ میرے اہل بیت میں سب سے پہلے تم مجھ سے ملوگی اور تم جنت میں تمام عالم عورتوں کی سردار ہو۔
سیرت کی جو تفصیلات ابن سعد نے فراہم کی ہیں وہ ایک بنیادی خاکے کی حیثیت رکھتی ہیں۔ وہ حتہ الامکان تاریخ اور سنہ بتانے کا بھی التزام کرتا ہے اور تاریخوں کے اختلاف کی طرف بھی اشارہ کردیتا ہے۔ ایک ہی واقعہ کے لئے مختلف راویوں سے ملنے والی روایات علیحدہ سلسلہ اسناد کے ساتھ درج کرتا ہے۔ اور کہیں کہیں محاکمہ بھی کرتا ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے آخری ایام، مرض، وفات، تدفین، کی تفصیلات طبقات کی دوسری جلد میں بیان ہوئی ہیں۔
سیرۃ نبوی کی تفصیلات کے علاوہ طبقات ابن سعد میں صدر اسلام کی پوری معاشرت کے بارے میں معلومات کا ایسا عظیم الشان ذخیرہ جمع کر دیا گیا ہے کہ ان بکھری ہوئی جزوی تفصیلات کی مدد سے ہم اسلام کی ابتدائی تیں صدیوں کی پوری تصویر تیار کر سکتے ہیں۔
ابن سعد ہمیں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی اولاد کے نام بھی بتاتا ہے۔ اور انکا حلیہ بھی بہت تفصیل سے بیان کرتا ہے۔

Monday, June 3, 2013

Seerat e Tayyiba 5

حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے کسی نے مسجد کوفہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا حلیئہ مبارک پوچھا تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا

 کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ابیض اللون مشربا حمرۃ ادعج  العین سبط اشعر کث اللحیۃ سھل الخد ذا وفرۃ دقیق المسربۃ کان عنقہ ابریق فضۃ لہ شعر من لبتۃ  سرتہ یجری کالقضیب لیئس فی بطنہ ولا صدرہ شعر غیرہ شثن الکف ولقدد اذا مشی کانما  ینحدر من صبب و اذا قام کانما ینقلعمن صخر اذا التفت التفت جمیعا کانا عرقہ فی وجھہ اللولو و لریح عرقہ اطیب من المسک الاذفزلئیس با لقصیر  ولا با الطویل ولا با 
العاجز ولا اللنیم لم ارقبلہ والا بعدہ مثلہ صلی اللہ علیہ و سلم۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا رنگ گورا  سرخی مائل تھا ۔گہری سیاہ آنکھیں ڈھیلے بال گھنی داڑھی  رخساروں پر گوشت کم تھا بال گھونگھر والے اور گھنے تھے  سینے سے شکم مبارک تک بالوں کی باریک لکیر تھی۔ آپ کی گردن چاندی کی سراحی جیسی لگتی تھی ہنسلی سے ناف تک بال تھے۔ اس کے سوا آپ کے سینے پر یا بدن پر اور بال نہیں تھے۔ ہتھیلی اور پائوں کے تلوے دبیز تھے۔ جب آپ چلتے تھے تو ایسا لگتا تھا کہ کسی بلندی پر سے اتر رہے ہیں۔ اور کھڑے ہوتے تو پھرتی سے کھڑے ہوتے تھے۔ جب کسی طرف کو مڑتے تو مڑ جاتے تھے۔ آپ کے چہرے پر پسینے کے قطرے موتیوں کی طرح چمکتے تھے اور آپ کے پسینے میں مشک سے زیادہ خوشبو تھی، نہ آپ لمبے تھے نہ کوتاہ قامت تھے۔ نہ آپ کے جسم میں کوئی عیب تھا ۔ نہ ڈھیلے ڈھالے تھے۔ میں نے آپ سے پہلے اور آپ کے بعد کسی کو آپ جیسا نہیں دیکھا۔ صلی للہ علیہ و سلم۔




Saturday, June 1, 2013

Seerat e Tayyiba 4

آپ صلی اللہ علیہ و سلم اندھیرے مکان میں نہ بیٹھتے تھے۔فصل کے ابتدائی میوے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں لائے جاتے تھے تو انہیں چومتے تھے اور آنکھوں سے لگاتے تھے اور فرماتے تھے:
اے اللہ جیسے ان کا آغاز ہمیں دکھایا ہے ایسے ہی انکی آخری فصل بھی ہمیں دکھائیو۔
ہدایا قبول فرماتے تھے مگر صدقہ ہرگز نہ لیتے تھے۔ کبھی کوئی مشتبہ چیز تناول نہ فرماتے تھے۔ مٹھائی اور شہد آپ کو بہت مرغوب تھا۔ ہانڈی میں بھی کھا لیتے تھے۔ البتہ پیاز سے رغبت نہ تھی، فرماتے تھے کہ تم لوگ کھاؤ میرے پاس فرشتہ آتا ہےاسلئے میں پرہیز کرتا ہوں۔
اسی طرح گوہ (سوسمار) کا گوشت نہیں کھاتے تھے۔ مگر دوسروں کو اسے کھانے سے منع نہیں فرمایا۔
دنیا کی چیزوں میں سے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو خوشبو، ازواج مطھرات،اور کھانا پسند تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم گھر سے باہر تشریف لاتے تو خوشبو سے راستے مہک جاتے تھے۔
آپ صلی اللہ علیہ و سلم  کو تحفہ میں عطر دیا جاتا تو بہت ہی خوشی اور رغبت سے قبول فرماتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم  کی مجلس میں کبھی خوشبؤوں کی دھونی بھی دی جاتی تھی۔
اس کے ساتھ ہی آپ صلی اللہ علیہ و سلم  کی زندگی اتنی سادہ اور کٹھن تھی کہ ابن عباس رضی اللہ عنہ کا قول ہے کئی کئی وقت مسلسل فاقے ہوجاتے تھے۔ عام طور سے جو کی روٹی کھائی جاتی تھی۔ شدت گرسنگی میں پیٹ سے پتھر باندھ لیتے تھے۔ چار چار مہینے تک گینہوں کی رہتی کھانے کا موقعہ نہیں ملتا تھا۔ پڑوس کے انصاری کبھی ہدیہ میں دودھ بھیج دیا کرتے تھے تو اسی پر گزر ہو جاتی تھی۔ آپ نے کبھی متواتر دو وقت کا کھانا پیٹ بھر کر نہیں کھایا۔
آپ صلی اللہ علیہ و سلم  کا وصال ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی ایک چادر ایک یہودی کے پاس ایک وسق (وزن) جو کے بدلے میں گروی رکھی ہوئی تھی۔


 مگر یہ معاشی حالت فتح خیبر سے پہلے تھی۔ جب اموال خیبر آئے تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی اور اصحاب کی معاشی حالت نسبۃ بہتر ہو گئ تھی۔

Seerat e Tayyiba 3


آپ کھانا کبھی تکیہ لگا کر نہیں کھاتے تھے اور تین انگلیوں سے کھاتے تھے۔ راستے میں بچوں تک کو سلام فرماتے تھے۔ کسی کے جنازے میں شرکت کے لئے کبھی سواری پر نہ جاتےتھے۔ فرماتے تھے کہ اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب عمل وہ ہے جس میں دوام ہو، خواہ وہ عمل قلیل ہی کیوں نہ ہو۔