Saturday, July 13, 2013

جدید سائنس اور اسکا مقصد وجود 8

امن عالم کےبقا کے لیے کھوکھلے نعرے۔کانفرینسیں۔ترک اسلحہ کے وقتی معاہدے۔۔غیر جانب داروں کا گٹھ جوڑ۔یہ سب کچھ نہیں کر سکتا۔
اصل ضرورت یہی ہے کہ طبیعیات و مابعد الطبیعیات کے درمیان کھنچی ہوئی دیوار کو گرایا جائے۔ مذہب سے کچھ گداز حاصل ہوگا ورنہ ساری انسانی اقدار ٹوٹ پھوٹ کر ریزہ ریزہ ہو جائینگی اور سیادت و قیادت صرف تشکیک کے ہاتھوں میں رہ جائے گی۔
اور ظاہر ہے کہ اس کا رزار حیات میں شک ہمیں دو قدم بھی ساتھ لے کر نہیں چل سکتا۔
مغرب میں مادیت کی بڑھی ہوئی لے بھی ایک رد عمل ہے اس لیے کہ ان ملکوں کو صدیوں تک مطالعہ ء فطرت سے محروم رکھا گیا ہے۔ جب انھوں نے چرچ سے بغاوت کر کے فطرت کا مطالعہ شروع کیا تو اپنی سائنسی فکر سے عقیدے کو بے دخل کر دیا۔ اس طرح گویا نظر یہءوجود و وجودیت ہی بالکل الٹا ہو گیا ۔ مادے اور کائنات میں حرکت ایک میکانکی عمل ہے جس کا کوئی عامل نہیں ۔اس لیے وہ بے۔ بے مقصد بھی ہے۔ اسلام نے زندگی اور موت دونوں کو با مقصد بتایا ہے۔
خلق الموت والحیات لیبلوکم ایکم احسن عمل 67۔2
اگر کائنات کی علت کون حرکت مادی ہو تو وجود خدا وندی کا اثبات کوں سی منطق سے ممکن ہے؟
اس لیے مغربی تہزیب میں جو کچھ بچا کھچا تصور الوہیت ہے وہ بھی سراسر بے بنیاد ہو جاتا ہے۔ جب مادے کو حقیقت اعلا مان لیا گیا تو اسکے ما ورا جو کچھ ہےوہ لازما باطل ہوا۔ روح بھی ما وراے مادہ ہے۔ لہزا وہ بھی باطل ہوئی۔ حق کا کوئی تصور مادے سے جدا ہو کر ممکن ہی نہیں رہا۔
جب روح اور نفس باطل ہو گئے تو ان پر جو انکشاف ہوگا اسے کیسے حقیقت مانا جا سکتا ہے؟ اس کا مطلب یہ ہوگا کہ ہم خود اپنے وجود کی نفی کر رہے ہیں۔۔ عقل بھی بادی علتوں کا ایک غیر موئثر معلول ہے۔ یہ بے اثر معلول ایک ازلی و ابدی حقیقت اعلا کا راز دار کیسے بن سکتا ہے؟
نفس اور عقل کوئی مادی شے نہیں ہیں مگر یہ مادی جسم میں پیدا ہو رہی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ مادہ کوئی غیر مادی شے کیسے پیدا کر سکتا ہے؟ سائنس کے پاس اسکا کوئی جواب نہیں۔ مادے کے مکانیکی حرکت نے جسم میں تو جان ڈال دی لیکن یہ عقل کہاں سے آئی؟
قرآن کے پاس اسکا سیدھا سا جواب موجود ہے۔۔۔
قل الروح من امر ربی 17-15
و نفخت فیہ من روحی 15-29
و نحن اقرب الیہ من حبل الورید 50-16
اس کے مان لینے سے سائنس کے نطریات تلپٹ نہیں ہو جاتے۔۔ انھیں ایک مضبوط فکری اور ما بعد الطبیعیاتی بنیاد مل جاتی ہے۔ جدید سائینس یہودیت اور عیسائیت کے ہاتھوں میں پڑ کر انسان کے لیے ہی نہیں سارے نظام کائینات کے لئے خطرہ بن گئی ہے۔ یہاں مسلمان علما کاقصور شروع ہوتا ہے۔
اسلام ہی وہ مذہب تھات جو سائینس کو ایک اعلا اور ارفع مقصد و غایت دے سکتا تھا۔
اور مسلمان ہی اسے اصلاح فی الارض کا وصیلہ بنا سکتے تھے۔ اگر مسلمان علما نے اجتہاد فی العلوم کے دروازی بند نہ کر دئے ہوتےاور علم الادیان کے ساتھ ہی علم الابدان کو بھی لے کر چلے ہوتے تو سائنس ایسی گم کردہ راہ نہ ہوتی جیسی کہ آج ہے۔
یہ جو کچھ زرق برق ایجادیں ہیں یہ سب ہوتیں ۔ بس انکا مقصد اور مصرف مختلف ہوتا۔اسلام اور سائنس کی ترکیب اور امتزاج سے دنیا کو توحید کا بھی ایک سائنسی تصور مل سکتا تھا۔ اور آخرت کا بھی۔ سائنس کی زندگی بھی زیادہ طویل ہوتی اور اس سے صالح انسانوں کا وہ طبقہ پیدا ہوتا جسے زمین کا وارث کہا گیا ہے۔
لیکن ماضی تمنائی کے ان صیغوں میں گفتگو کرنےسے کیا ہوتا ہے۔ سائنس اپنے راستے پر آگے نکل گئی ہے اور مسلمان اپنے خواب خرگوش میں مست ہیں۔
نقصان انسانیت کا نہیں پوری کائینات کا ہو رہا ہے۔ ایک سوچنے والا با شعور ذہن سب سے زیادہ اذیت میں مبتلا ہے۔ وہ نہ سائینس کو بغیر تصور حقیقت اعلا کے مان سکتا ہے اور نہ حقیقت اعلا کے کسی غیر سائینسی تصور پر قناعت کر سکتا ہے۔ 
ختم شد

Friday, July 12, 2013

جدید سائنس اور اسکا مقصد وجود 7

انسان کے اعمال اسے شرف و فضیلت کاحقدار بنا دیتے ہیں۔ 
ان اکرکم عنداللہ اتقکم 49-13
اور اچھے اعمال ساری کائنات کی اصلاح اوراحترام انسانیت کی بقا کے ضامن ہوتے ہیں۔ اسلئے اصلاح بھی وہ معتبر ہےجس کا مقصد احترام انسانیت ہو۔ یہودیوں پر جو  فرد جرم قرآن میں عائد کی گئی ہےاس میں قتل انبیاءاور رسل اور تحریف صحف سماوی کے ساتھ ہی سب سے بڑا الزام یہ ہے کہ وہ اصلاح کے نام پر فساد پیدا کرتےہیں اور اس پر اصرار کرتے ہیں۔
و اذا قیل لھم لا تفسد فی الارض قالو انما نحن مصلحون۔الا انھم ھم المفسدون ولکن لا یشعرون۔ 2-12،11
آج کی دنیا میں دو بڑے انقلاب آئے  ہیں۔۔۔۔۔۔۔ایک سماجی علوم کی سطح پر اشتراکیت کا فلسفہ۔ دوسرے سائنسی علوم میں نظریہء اضافیت اور ایٹم کی دریافت۔ دونوں کے موجد یہودی ہیں ۔کارل مارکس اور آئن اسٹائن۔۔۔۔۔۔۔اشتراکیت نے انسانی سماج سے خدا کو بے دخل کرنے میں ایڑی چوٹی کا زور لگا رکھا ہے۔ وہ صرف مادی زندگی میں یقین رکھتی ہے۔ اس کے نزدیک موراے مادہ کچھ بھی نہیں ہے۔انسایت پر اس کے مضراثرات کا جائزہ لینا اس مختصر سے مضمون میں ممکن 
نہیں ہے۔ 
ایٹم کی دریافت نے بکثرت ایسے تباہ کن ہتھیار بنا کر رکھ دیے ہیں کہ اگر ان میں سے چند بھی استعمال ہو گئے اور کسی محوری جگہ پر گرا دیے گئے تو یہ زمین اپنے مدار سے سرک جائے گی۔ جس کا مطلب یہ ہوگا کہ وہ اس نظام شمسی سے نکل کر پاش پاش ہو جائے گی۔
اب بتائیے کہ یہ اصلاح کے نام پر فساد ہے کہ نہیں؟
آج سائنس کی سب سے بڑی ضرورت یہ ہے کہ اسے کوئی مقصد اور غایت مل جائے۔ورنہ اسکی زندگی بہت مختصر ہے۔
اتنے بہت سے اسباب ہلاکت فراہم ہونے کے بعد بھی یہ توقعہ کرنا کہ دنیا اسی طرح چلتی رہے گی اور سائنس یونہی نئے آفاق کا کھوج لگاتی رہےگی جنت الحمقا میں رہنے کے مترادف ہے۔