Friday, December 6, 2013

تقابلی مطالعہ مزاہب ۔۔۔آخری حصہ

عالمی یونی ورسٹیوں میں اس طرح کے شعبےقائم ہو چکےہیں جہاں تقابلی مزہب ۔
کی تعلیم و تحقیق اعلی پیمانے پر ہوتی ہے۔
اس طرح کا سب سے اچھا مرکز ہارورڈ یونی ورسٹی میں ہے۔
یہاں مختلف مزاہب کے لوگ جمع ہو کر اپنے مزہب کے علاوہ کسی دوسرے عقیدے کا گہرا مطالعہ کرتے ہیں۔
ہر مزہب کی عبادت گاہیں بھی وہیں کیمپس میں موجود ہیں۔ اور ایسے مواقع بار بار ملتے ہیں جہاں سب جمع ہوکر ایک دؤسرے سے تبادلئہ خیال کرتے ہیں اور سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ 
ہندوستان میں انھیں بنیادوں پر پنجابی یونی ورسٹی پٹیالہ میں شعبہءتقابلی مزہب کا قیام عمل میں آیا تھا۔
یہاں ہندوستانی مزاہب کے علاوہ اسلام، عیسائیت، اور چینی مزاہب کے مطالعے کی سہولتیں موجود ہیں۔ شعبہ سے ایک سہ ماہی جرنل بھی ریلیجس سٹڈیز کے نام سے شائع ہوتا ہے۔
ہندوستان یسے ملک میں جہاں کئی تہزیبوں کا سنگم ہوا ہےاور جو خود بڑی تہزیبوں کا گہوارہ رہا ہے، جہاں آج بھی مختلف نسلوں پر مشتمل معاشرہ اور اور مختلف مزاہب کے پیرو موجود ہیں، ایک دؤسرے کو جاننے سمجھنے کی بہت ضرورت ہے۔
آج کے معاشرے میں ایسے علم و تحقیق کے شعبےہر دانش گاہ میں ہونے چاہئیں۔ پنجابی یونی ورسٹی نے پٹیالہ میں ایک چراغ روشن کیا ہے جس سے مستقبل میں دؤسرے چراگ بھی روشن ہونگے۔
بہت دنوں تک ہمارے تعلیمی ادارے اس اہم موضوع کو نظر انداز کرتے رہے۔ ایک ہی مزہب کے متعلق مطالعہ و تحقیق کے بہت سے مرکز مووجود تھےلیکن دؤسرے مزہب کے مطالعے یا تقابلی مزہب کی اہمیت کا احساس دیر میں جاگا ہے۔ لیکن اس سے جو خوشگوار نتائج نکلیں گے، ان سے دؤسروں کو بھی اس کی تقلید کا احساس ہوگا۔ 
ہندوستان میں سیکیولرزم اور تہزیبی کثرت میں قومی وحدت کو صحیح بنیادوں پر باقی رکھنے کے لیے تقابلی مزہب سے زیادہ مفید اور موثر کوئی ڈسپلن نہیں ہو سکتا۔

Saturday, November 16, 2013

تقبالی مطالعہ مزاہب-8

کوئی مزہب ایسا نہیں جس میں پروہتوں، پنڈتوں، ملاؤںاور پادریوں کی  اجارہ داری کسی نہ کسی درجہ میں موجود نہ ہو۔ جہاں پروہتوں کی گنجائیش نہیں بھی تھی وہاں پیدا کر لی گئی ہے۔ ہر مزہب اس پریشانی کا جواب دینا چاہتا ہے کہ مرنے کے بعد کیا ہوگا؟ خواہ وہ یہی کہے کہ کچھ نہیں ہوگا لیکن اس سوال کا کانٹا تو ہر ذہن میں کھٹکتا ہے۔ پھر یہ کہ اخلاقیات کو کسی مزہب میں بنیادی پتھر کی حیثیت حاصل ہے اور کہیں اسے بالکل بے دخل کر دیا گیا ہے۔ اسی طرح فلسفہ بھی ہر مزہبی فکر میں جزو لازمی ہے۔ کہیں یہ جزو اعظم بن جاتا ہے، جیسےبدھ مت میں اور کہیں صرف چاشنی کے لئے باقی رہ گیا ہے۔
کس مزہب میں بنیادی فکر اور فلسفہ کیا ہے؟ دنیا کی زندگی کے بارے میں وہ کیا کہتا ہے؟ اخلاقیات، عبادات، رسوم و عبادات میں کیا تعلیم دیتا ہے؟ بعد کی زندگی کا کیا نظریہ ہے؟ یہ سب باتیں تقابلی مزہب کا موضوع ہیں۔
ان سب مباحث کو اختصار کے ساتھ یون کہ سکتے ہیں کہ ہر مزہب کو دو معیاروں سے پرکھا جا سکتا ہے۔ وہ انسان اور انسان کے تعلق کو کیسے قائم کرتا ہے اور انسان اور ہستی اعلا (خدا)کے تعلق کو کس طرح ثابت کرتاہے۔
 آج سےایک صدی قبل تک ممالک الگ تھلگ رہ کر زندہ تھےلیکن آج کی دنیا میں ایک دؤسرے پر انحصار نا گزیر ہو گیا ہےاور بین الاقوامی روابط تہزیبی سطح پر بھی اتنے بڑھ چکے ہیں کہ ایک دوسرے کو اچھی طرح جانے بغیر چارہ نہیں ۔ نو آبادیات قائم کرنے والی قوتوں نے دؤسرے مزاہب اور تہزیبوں کا مطالعہ یک طرفہ تھا۔ اب جس طرح کے نظریات اپنا اقتدار قائم کر رہے ہیں، تقابلی مزہب ایک پر امن ، خوشگوار اور باہمی مفاہمت پر مبنی انسانی معاشرہ قائم کرنے میں بہت اچھا رول ادا کر سکتا ہے۔

Saturday, October 19, 2013

تقابللی مطالعہء مزاہب7

کسی مزہب کو سمجھنے کے لئے یہ دیکھنا ہوگا کہ وہ کس تہزیب کی آغوش میں پلا ہے اور اس تہزیب کا سفر کہاں سے شروع ہوا ہے، اس نے بنی نوع انسان کو کیا دیا ہے، دوسری تہزیبوں پر کہاں تک اثر ڈالا ہے، دوسروں سے کیا لیا ہے، انکو کیا دیا ہے۔ کوئی تہزیب یا مزہب بھنورے میں پلا ہوا نہیں ہے۔ افکار سے خوشہ چینی اور لین دین کا فطری عمل ازل سے جاری ہےاور ابد تک رہے گا۔ بعض تنگ نظر لوگوں کو یہ بات گوارا نہیں ہوتی کہ انکی تہزیب یا مزہب نے بھی کسی سے کچھ لیا ہے، اس کو سامنے لایا جائے۔ لیکن تقابلی مزہب ایسی تنگیء نظر کے ساتھ ممکن نہیں۔ ہماری نظر مزہبوں کے مشترک عناصر پر رہنی چاہئے۔
پڑے خانوں میں بانٹیں تو مزاہب میں ایک طرف کثرت پرستی ہے جس میں مظاہرِ فطرت کی پوجا ملے گی، حیوانوں کی پرستش ،درختون کی پوجا، دریاؤں کی تقدیس کسی نہ کسی شکل میں ہر مزہب میں موجود ہے۔  لیکن کثرت پرستی کا فطری سفر توحید کی طرف ہوا ہے۔ یہ کثرت کبھی گھٹ کر تیں میں، کہیں دو میں، رہ گئی ہے۔ 
پھر وحدت کا نظریہ شروع ہوتا ہےتو اس کو بھی فلسفیانہ بحثوں نےتوحیدِخالص تک پہنچایاہے۔
ہر مزہب میں کچھ باتیں عقل و فہم سے ماورا ہیں۔ کچھ حصہ غیب کا ہے، کچھ توہمات ہیں،سحر و افسوں۔ طلسمات، نذرو نیاز، ٹوٹکے اور غیبی طاقتوں کو منانے یا قابؤ میں لانے کے کچھ نسخےہیں۔ ان کا تقابلی مطالعہ بھی اہم نتائج تک پہنچاتا ہے۔ 

Wednesday, October 16, 2013

تقابلی مطالعء مزاہب 6

تقابلی مزہب کے بارے میں چند بنیادی شرائط یاد رکھنا ضروری ہیں جن کے بغیر اپنے مزہب اور عقیدے کے علاوہ کسی دوسرے مزہبی نظام کا حق بھی ادا نہیں ہوتا۔
ہم کسی عقیدے کو صحیحح اور کسی کو غلط سمجھتے ہیں، اس سے تقابلی مطالعے میں صحیح نتائج تک پہنچنا دشوار ہو جاتا ہے۔ یہ بات دوسرے ہے کہ ایک غیر جانبدارانہ تحقیق ہمیں خود ہی کسی نتیجے تک پہنچا دے۔----- تقابلی مزہب کی دوسری بنیادی شرط کسی ایسی کلاسیکی زبان سے ماہرانہ واقفیت نہ ہونے کی صورت میں اچھی طرھ نہیں سمجھ سکتے۔ اسی طرح ویدک دھرم کو سنسکرت کے بغیر ، بدھ مت کو پالی کے بغیر ، یہودیت کو عرابی جانے بغیر نہیں سمجھا جا سکتا۔
ہر مزہب کی کچھ بنیادی کتابیں ہوتی ہیں جن سے اصولِ مزہب کا علم حاصل ہوتا ہے، بعد میں علما کی بحثیں، تاویلیں اور اختلافات کچھ کا کچھ کر دیتے ہیں۔ کسی مزہبی فکر کی صحیح واقفیت ان سب اختلافات سے دامن بچا کر ہی حاصل کی جا سکتی ہے۔ 
انسان کی تہزیب ایک بڑا کینوس ہے۔ مزہب اس کا ایک مظہر ہے، اسی طرح زبان بھی۔ زبانیں بھی خاندانوں میں بٹ جاتی ہیں۔ عراقی تہزیب، مصری تہزیب،آرائی تہزیب، ایرانی، یونانی، رومی، کیلٹی، ٹیوٹانی، چینی، عربی، سالدی تہزیب، ان میں سے ہر ایک کی علاحدہ تاریخ ہے، دائرہء اثر ہے، مظاہر ہیں اور نقظہء عروج و زوال ہے۔

Thursday, September 26, 2013

تقابلی مطالعہء مزاہب5

تقابلی مزہب کے سلسلے میں ایک اور نام محمد بن عبدالکریم شہرستانی کا ہے جو خراسان کے قصبہ شہرستان میں 469 ہجری میں پیدا ہوا اور 547ہجری/1153 عیسوی میں اسکی 
وفات ہوئی۔
اس نے 521 ہجری/1127 عیسوی میں اپنی شہرءآفاق کتاب الملل و النحل لکھی مگر اس نے یہ دیکھا ہے کہ کون کون سے مزاہب اسلام کے بنیادی عقائد سے ہٹے ہوئے ہیں اور  کون اس سے قریب ہیں۔
اس نے اپنی کتاب میں پہلے اسلامی فرقوں کا حال لکھا ہے، پھر اہلِ کتاب یعنی عیسائی اور یہودی مزاہب سے بحث کی ہے۔
تیسرے حصے میں وہ مزاہب ہیں جن کی الہامی کتابیں مشکوک ہیں۔
وہ عہدِ قدیم کی مظاہر پرستی کے بعد یونانی حکما کے فلسفوں پر بھی علاحدہ علاحدہ بحث کرتا ہے۔ اس مطالعے میں اس کا رویہ اگر غیر جانب دارانہ نہیں تو اسے معاندانہ بھی نہیں کہا جا سکتا لیکن وہ ابن حزم کے مقابلے میں یقیناً نرم تنقید کرتا 
ہے۔
 شہرستانی نے اپنی کتاب کے آخر میں ہندوستانی مزہب سے بھی بحث کی ہے لکین بدھ مت کے بارے زیادہ لکھا ہے۔
دوسرے مزاہب دی معلومات شاید اسے نہ مل سکی ہوں، ان سے وہ سرسری گزر جاتا ہے۔
ہندوستان میں بھی قدیم علما نے اس موضوع پر کچھ کام کئے ہیں۔ ان میں ہم تین کتابوں کا خاص طور سے ذکر کر سکتے ہیں۔ ایک دبستان مزاہب جسے محسن فانی کشمیری سے منسوب کیا جاتا ہے لیکن صحیح یہ ہے کہ کیخسرو اسفندیار   کی تالیف ہے۔
دوسری کتاب داراشکوہ کی مجمع البحرین ہے جس میں تصوف اسلامی اور ویدانت کا تقابل بڑے عالمانہ اور فلسفانہ انداز میں کیا گیا ہے۔ تقابلی مزہب کے موضوع پر ہندوستان میں اس سے اچھی کتاب شاید ہی کوئی لکھی گئی ہو۔
اٹھارھویں صدی کے آخر میں محمد حسن قتیل کی ہفت تماشا بھی ہندوستانی مزاہب اور فرقوں کو سمجھنے کی ایک اچھی کوشش ہے۔ اس صدی میں تو بہت سے اعلی درجے کےکام ہوئے ہیں جن میں ڈاکٹر تارا چند، ایم ۔این رائے اور پنڈت سندرلال کی کوششیں خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔

Sunday, September 22, 2013

تقابلی مطالعہ مزاہب4

تقابلی مزہب میں تیسرا نام ابن حزم اندلسی کا لیا جا سکتا ہےجو ٩٩٤ عیسوی میں پیدا ہوا اور ١٥ اگست ١٠٦٤ عیسوی کو وفات پا گیا۔
اس کے پردادا نے عیسائیت سے اسلام قبول کیا تھا۔ ابن حزم کی تصانیف میں کتاب الفصل فی الملل و الاھواوالنحل بھی ہے لیکن ہم اسے تقابلی مزہب کی کتاب نہیں کہ سکتے۔
اس کے دو سبب ہیں :ایک تو یہ کتاب سخت لب و لہجہ میں لکھی گئی ہے۔ دوسرے مزاہب کے فکری اور فلسفیانہ تضادات کو ظاہر کرتی ہے اور اس کا انداز بھی مناظرانہ ہے۔ ابن حزم اپنی کاٹ اور سخت تنقید کے لئے مشہور ہی ہے۔ 
پھر اس نے تمام ادیان عالم سے بحث نہیں کی ہے بلکہ سامی مزاہب اور یونانی افکار کو زیر بحث لایا گیا ہے۔ اس کی یہ کتاب فرانسیسی اور ہسپانوی زبانوں میں بھی ترجمہ ہو چکی ہے۔
اردو میں اس کا ترجمہ عبداللہ العمادی نے کیا تھا جو ١٩٤٥ عیسوی میں تین جلدوں میں حیدرآباد کے دار الترجمہ سے چھپا تھا۔ 

Friday, September 20, 2013

تقابلی مطالعہ مزاہب 3

یہ ہندوستانی مزاہب پر کسی عرب سکالر کی لکھی ہوئی قدیم ترین کتاب رہی ہوگی۔
عباسی وزیر یحیی بن خالد برمکی نے کسی شخص کو ہندوستان بھیجا تھا کہ وہ دواءوں کے لئے کچھ جڑی بوٹیاں لے کر آئے۔ اس نے یہاں اپنی سیاحت کے زمانے میں ہندوستانی مزاہب سے بھی واقفیت حاصل کی، پھر یہ کتاب لکھی۔ ہندوستان کے بہت سے ویدوں اور پنڈتوں کو بھی تیسری صدی ہجری میں عباسی سی خلافت میں بلایا گیا تھا۔
ابن الندیم نے ہندوستان کے قدیم بت خانوں کا کچھ حال اسی کتاب میں لکھا ہے۔ وہ بدھ مت اور اس کی عبادت گاہوں کے بارے میں بھی ہمیں بتاتا ہے۔
اس کی یہ کتاب 377 ہجری میں تیار ہو چکی تھی۔
دوسری عظیم شخصیت ابو ریحان البیرونی کی ہے جو اپنے زمانے میں نابغہ روزگار ہوا ہے۔
وہ 363 ہجری /974 ء میں پیدا ہوا اور 440 ہجری/1048 ء میں اس کا انتقال ہوا۔
البیرونی ہندوستان آیا۔  یہاں اس نے پنڈتوں کے ساتھ رہ کر ریاضی، جیوتش،فلسفہ، منطق وغیرہ علوم حاصل کیے اور تحقیق ما للہند جیسی بے مثال کتاب لکھی جس پر ہندوستانی فخر کر سکتے ہیں۔
البیرونی گیتا کا مداح ہے۔ اس نے پہلی بار اس کے طویل اقتباسات کا عربی ترجمہ اپنی کتاب میں شامل کیا۔ وہ تیرہ سال ہندوستان میں رہا اور سنسکرت زبان میں مہارت حاصل کی۔ ہندوءوں کے مزہب، تہزیب و تمدن ، رسوم و رواج اور عقائد توہمات کا گہرا اور ہمدردانہ مطالعہ کر کے اس کے نتائج اس کتاب میں پیش کئے جسے ایڈورڈ زخائو فکری  اعتبار سے دنیا کی بلند پایہ کتابوں میں شمار کرتا ہے۔
البیرونی نے وراہامہرہ کی برہت شمہتا اور لاگھو جاٹم کے علاوہ پاتنجلی کا بھی عربی ترجمہ کیا ۔
ہندوستان کے بارے میں البیرونی نے جو کچھ لکھا ہے، اس کے مقابلہ میں ہیون سانگ، میگستھنیز اور ابن بطوطہ کی کتابیں بچوں کے لیے لکھی ہوئی کتابیں معلوم ہوتی ہیں۔

Tuesday, September 17, 2013

تقابلی مطالعہ مزاہب 2



دنیا کے بڑے مزاہب میں اسلام کے سوا کوئی مزہب ایسا نہیں
 ہے جو تاریخ کی روشنی میں پیدا ہوا ہو۔ اس لیے مزاہب کی تاریخ کا مطالبہ تاریک زمانوں سے شروع ہوتا ہے۔ تاریخی شواہد نہ ہونے کی صورت میں رسوم و عقائد ،طرز زندگی، عبادات، اور معاملات کے گہرے تجرباتی مطالعہ سے ہی نتائج اخذ کیے جا سکتے ہیں۔ اس لیے مزاہب کا مطالعہ بہت سے دوسرے موضوعات کے مطالعہ سے بہت مختلف ہو جاتا ہے۔ اس میں صحیح نتیجے تک پہنچنے کا دار و مدار تجزیہو تحلیل کی صلاحیت پر ہوتا ہے۔
تقابلی مزہب بحث اور تحقیق کا نیا موضوع ہےاس سے پہلے ہمارے علما اس سے واقف نہیں تھے۔ ماضی میں مطالعہ مزہب کا رویہ بھی غیر جانب دارانہ نہیں تھا۔
عموما اپنے ہی مزہب کا مطالعہ اور اسمیں غور و فکر کرتے تھے۔  یا اسکے مختلف فرقوں اور شاخوں کی تفصیل لکھتے تھے۔ دوسرے مزاہب کا ہمدردی کے ساتھ مطالعہ کرنے کی روایت نہیں تھی۔
پھر بھی بعض مسلم علما نے اپنے طور پر تقابلی مزہب کا مقابلہ پیش کیا۔ ان میں سب سے اہم کتاب ابن اندیم (متوفی 385 ہجری) کی الفہرست ہے جس کے مقالہ نہم میں ہندوستانی مزاہب کا حال لکھا گیا ہے۔
اس سے ہم چوتھی صدی کے ہندوستان کا حال جان سکتے ہیں۔
یہ وہ زمانہ ہے جب مسلمان فاتحوں کے قدم اس سرزمین کے شمالی اور وسطی حصوں تک نہیں پہنچے تھے۔
ابن اندیم نے ایک کتاب کا ذکر کیا ہے جو 3 محرم 249 ہجری کو لکھی گئی تھی۔ اس کا نام اس نے ملل الھند و ادیانھا بتایا ہے۔ یعنی ہندوستانی قومیں اور ان کے مزاہب۔
اس کتاب کے مصنف کا نام معلوم نہیں ہو سکا لیکن اس میں کوئی عبارت یعقوب الکندی کی لکھی معلوم ہوتی ہے۔

جاری ہے۔۔۔

Monday, September 16, 2013

تقابلی مطالعہ مزاہب۔۔۔1



پہاڑوں کی کھو سے نکل کر چاند کی خاک چھاننے تک انسان نے ایک طویل سفر کیا لےاور اس سفر کے ہر مرحلے میں وہ کسی نہ کسی شکل میں مزہب کو مانتا رہا ہے اس لیے مزہب کی تاریخ اتنی ہی پرانی ہے جتنی انسان کی زندگی۔ جس طرح ہر قوم اور ہر علاقے کا کلچر مختلف ہےاسی طرح مزہب میں بھی اختلاف ہے۔ بلکہ یون کہا جا سکتا ہے کہ جیسے ایک انسان کی شکل دوسرے سے کلی طور پر نہیں ملتی اسی طرھ ہر شخص کا عقیدہ بھی کچھ نہ کچھ انفرادی خط و خال رکھتا ہے۔
اس لیے ہم خواہ انسان کی تہزیبی اور معاشرتی زندگی کا مطالعہ کریں یا کسی کی شخصیت اور سیرت و کردار کو موضوع بحث بنائیں دونوں صورتوں میں مزہب اور عقیدت کو نظرانداز نہیں کر سکتے۔
مزہب اور عقیدے کی طویل اور پیچیدہ تاریخ کا مطالعہ اگر گہری نظر اور ٹھنڈے دل و دماغ کے ساتھ کیا جائے تو ہم بنی نوع انسان کی روح کو کھوج سکتے ہیں۔ می
انسان نے ایک طویل جد و جہد کی ہے۔ وہ فطرت کے مظاہر سے خوف زدہ بھی رہا ہے۔ ان سے لڑا بھی ہے اور ان پر فتح یاب بھی ہوا ہے۔
اس نے اپنے تحفظ کے لیے جتنی پناہ گاہیں بنائی ہیں اور جتنی مادی اور غیر مادی قوتیں زندگی کو آفات سے بچانے کے لئے پیدا کی ہیں ان میں سب سے زیادہ قوی پر اثر اور دیر پا قوت عقیدہ ہی ہے۔
یہی سبب ہے کہ انسان نے سب سے زیادہ قربانیاں عقیدے کے لیے دی ہیں۔
اگر یہ ڈور اس کے ہاتھ سے نکل جاتی تو وہ اپنے گرد و پیش کی بے رحم طاقتوں کا شکار ہو گیا ہوتا اور آج زمین پر اس کا وجود ہوتا بھی تو اشرف المخلوقات کی صورت میں نہ ہوتا۔
اس لیے مزہب اور عقیدے کا مطالعہ نوع انسان کی تنظیمی قوت اور بقا کی جد و جہد میں اس کے ثبات اور استقامت کا مطالعہ ہے۔اس مطالعہ کے ضمن میں تاریخ جغرافیہ فلسفہ فنون لطیفہ اور سائنس تک سبھی شعبہ ہاےعلوم سے مدد ملتی ہے۔
اس لئے انسانی علوم کی کوئی شاخ ایسی نہیں ہے جس پر مزہب اثرانداز نہ ہوا ہو۔۔۔۔
جاری ہے۔

Saturday, July 13, 2013

جدید سائنس اور اسکا مقصد وجود 8

امن عالم کےبقا کے لیے کھوکھلے نعرے۔کانفرینسیں۔ترک اسلحہ کے وقتی معاہدے۔۔غیر جانب داروں کا گٹھ جوڑ۔یہ سب کچھ نہیں کر سکتا۔
اصل ضرورت یہی ہے کہ طبیعیات و مابعد الطبیعیات کے درمیان کھنچی ہوئی دیوار کو گرایا جائے۔ مذہب سے کچھ گداز حاصل ہوگا ورنہ ساری انسانی اقدار ٹوٹ پھوٹ کر ریزہ ریزہ ہو جائینگی اور سیادت و قیادت صرف تشکیک کے ہاتھوں میں رہ جائے گی۔
اور ظاہر ہے کہ اس کا رزار حیات میں شک ہمیں دو قدم بھی ساتھ لے کر نہیں چل سکتا۔
مغرب میں مادیت کی بڑھی ہوئی لے بھی ایک رد عمل ہے اس لیے کہ ان ملکوں کو صدیوں تک مطالعہ ء فطرت سے محروم رکھا گیا ہے۔ جب انھوں نے چرچ سے بغاوت کر کے فطرت کا مطالعہ شروع کیا تو اپنی سائنسی فکر سے عقیدے کو بے دخل کر دیا۔ اس طرح گویا نظر یہءوجود و وجودیت ہی بالکل الٹا ہو گیا ۔ مادے اور کائنات میں حرکت ایک میکانکی عمل ہے جس کا کوئی عامل نہیں ۔اس لیے وہ بے۔ بے مقصد بھی ہے۔ اسلام نے زندگی اور موت دونوں کو با مقصد بتایا ہے۔
خلق الموت والحیات لیبلوکم ایکم احسن عمل 67۔2
اگر کائنات کی علت کون حرکت مادی ہو تو وجود خدا وندی کا اثبات کوں سی منطق سے ممکن ہے؟
اس لیے مغربی تہزیب میں جو کچھ بچا کھچا تصور الوہیت ہے وہ بھی سراسر بے بنیاد ہو جاتا ہے۔ جب مادے کو حقیقت اعلا مان لیا گیا تو اسکے ما ورا جو کچھ ہےوہ لازما باطل ہوا۔ روح بھی ما وراے مادہ ہے۔ لہزا وہ بھی باطل ہوئی۔ حق کا کوئی تصور مادے سے جدا ہو کر ممکن ہی نہیں رہا۔
جب روح اور نفس باطل ہو گئے تو ان پر جو انکشاف ہوگا اسے کیسے حقیقت مانا جا سکتا ہے؟ اس کا مطلب یہ ہوگا کہ ہم خود اپنے وجود کی نفی کر رہے ہیں۔۔ عقل بھی بادی علتوں کا ایک غیر موئثر معلول ہے۔ یہ بے اثر معلول ایک ازلی و ابدی حقیقت اعلا کا راز دار کیسے بن سکتا ہے؟
نفس اور عقل کوئی مادی شے نہیں ہیں مگر یہ مادی جسم میں پیدا ہو رہی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ مادہ کوئی غیر مادی شے کیسے پیدا کر سکتا ہے؟ سائنس کے پاس اسکا کوئی جواب نہیں۔ مادے کے مکانیکی حرکت نے جسم میں تو جان ڈال دی لیکن یہ عقل کہاں سے آئی؟
قرآن کے پاس اسکا سیدھا سا جواب موجود ہے۔۔۔
قل الروح من امر ربی 17-15
و نفخت فیہ من روحی 15-29
و نحن اقرب الیہ من حبل الورید 50-16
اس کے مان لینے سے سائنس کے نطریات تلپٹ نہیں ہو جاتے۔۔ انھیں ایک مضبوط فکری اور ما بعد الطبیعیاتی بنیاد مل جاتی ہے۔ جدید سائینس یہودیت اور عیسائیت کے ہاتھوں میں پڑ کر انسان کے لیے ہی نہیں سارے نظام کائینات کے لئے خطرہ بن گئی ہے۔ یہاں مسلمان علما کاقصور شروع ہوتا ہے۔
اسلام ہی وہ مذہب تھات جو سائینس کو ایک اعلا اور ارفع مقصد و غایت دے سکتا تھا۔
اور مسلمان ہی اسے اصلاح فی الارض کا وصیلہ بنا سکتے تھے۔ اگر مسلمان علما نے اجتہاد فی العلوم کے دروازی بند نہ کر دئے ہوتےاور علم الادیان کے ساتھ ہی علم الابدان کو بھی لے کر چلے ہوتے تو سائنس ایسی گم کردہ راہ نہ ہوتی جیسی کہ آج ہے۔
یہ جو کچھ زرق برق ایجادیں ہیں یہ سب ہوتیں ۔ بس انکا مقصد اور مصرف مختلف ہوتا۔اسلام اور سائنس کی ترکیب اور امتزاج سے دنیا کو توحید کا بھی ایک سائنسی تصور مل سکتا تھا۔ اور آخرت کا بھی۔ سائنس کی زندگی بھی زیادہ طویل ہوتی اور اس سے صالح انسانوں کا وہ طبقہ پیدا ہوتا جسے زمین کا وارث کہا گیا ہے۔
لیکن ماضی تمنائی کے ان صیغوں میں گفتگو کرنےسے کیا ہوتا ہے۔ سائنس اپنے راستے پر آگے نکل گئی ہے اور مسلمان اپنے خواب خرگوش میں مست ہیں۔
نقصان انسانیت کا نہیں پوری کائینات کا ہو رہا ہے۔ ایک سوچنے والا با شعور ذہن سب سے زیادہ اذیت میں مبتلا ہے۔ وہ نہ سائینس کو بغیر تصور حقیقت اعلا کے مان سکتا ہے اور نہ حقیقت اعلا کے کسی غیر سائینسی تصور پر قناعت کر سکتا ہے۔ 
ختم شد

Friday, July 12, 2013

جدید سائنس اور اسکا مقصد وجود 7

انسان کے اعمال اسے شرف و فضیلت کاحقدار بنا دیتے ہیں۔ 
ان اکرکم عنداللہ اتقکم 49-13
اور اچھے اعمال ساری کائنات کی اصلاح اوراحترام انسانیت کی بقا کے ضامن ہوتے ہیں۔ اسلئے اصلاح بھی وہ معتبر ہےجس کا مقصد احترام انسانیت ہو۔ یہودیوں پر جو  فرد جرم قرآن میں عائد کی گئی ہےاس میں قتل انبیاءاور رسل اور تحریف صحف سماوی کے ساتھ ہی سب سے بڑا الزام یہ ہے کہ وہ اصلاح کے نام پر فساد پیدا کرتےہیں اور اس پر اصرار کرتے ہیں۔
و اذا قیل لھم لا تفسد فی الارض قالو انما نحن مصلحون۔الا انھم ھم المفسدون ولکن لا یشعرون۔ 2-12،11
آج کی دنیا میں دو بڑے انقلاب آئے  ہیں۔۔۔۔۔۔۔ایک سماجی علوم کی سطح پر اشتراکیت کا فلسفہ۔ دوسرے سائنسی علوم میں نظریہء اضافیت اور ایٹم کی دریافت۔ دونوں کے موجد یہودی ہیں ۔کارل مارکس اور آئن اسٹائن۔۔۔۔۔۔۔اشتراکیت نے انسانی سماج سے خدا کو بے دخل کرنے میں ایڑی چوٹی کا زور لگا رکھا ہے۔ وہ صرف مادی زندگی میں یقین رکھتی ہے۔ اس کے نزدیک موراے مادہ کچھ بھی نہیں ہے۔انسایت پر اس کے مضراثرات کا جائزہ لینا اس مختصر سے مضمون میں ممکن 
نہیں ہے۔ 
ایٹم کی دریافت نے بکثرت ایسے تباہ کن ہتھیار بنا کر رکھ دیے ہیں کہ اگر ان میں سے چند بھی استعمال ہو گئے اور کسی محوری جگہ پر گرا دیے گئے تو یہ زمین اپنے مدار سے سرک جائے گی۔ جس کا مطلب یہ ہوگا کہ وہ اس نظام شمسی سے نکل کر پاش پاش ہو جائے گی۔
اب بتائیے کہ یہ اصلاح کے نام پر فساد ہے کہ نہیں؟
آج سائنس کی سب سے بڑی ضرورت یہ ہے کہ اسے کوئی مقصد اور غایت مل جائے۔ورنہ اسکی زندگی بہت مختصر ہے۔
اتنے بہت سے اسباب ہلاکت فراہم ہونے کے بعد بھی یہ توقعہ کرنا کہ دنیا اسی طرح چلتی رہے گی اور سائنس یونہی نئے آفاق کا کھوج لگاتی رہےگی جنت الحمقا میں رہنے کے مترادف ہے۔

Saturday, June 22, 2013

جدید سائنس اور اسکا مقصد وجود 6

اسلام کا نظریہء حیات و کائنات اس کی اجازت نہیں دیتا کہ طبیعیات کو ما بعد الطبیعیات سے یا دوسرے لفظوں میں مادے کو روح سے علاحدہ کرکے دیکھا جائے۔ علم کی غایت عرفان  ہے اور انسان کی حد تک عرفان کی منزل اعلا عرفان نفس ہے۔ اس کا مظہر خشیت ہے اور خشیت قساوت قلبی کی ضد ہے۔ آج انسانی معاشرے میں جو قساوت نظر آ رہی ہے اس کا سبب یہی ہے کہ جدید صنعتی و سائنسی معاشرت سےخوف خدا رخصت ہو گیا ہے۔  اسلامی نظریہ سے اگر سائنس کا استعمال کیا جاتا تو وہ خشیت پیدا کرتا۔ 
 انما یخشی اللہ من عبادہ العلماءُ  کا یہی مفہوم ہے اور بعض مفسرین ایک قراۃ یوں بھی کرتے ہیں انما یخشی اللہ من عبادہ   العلماءَ  یعنی اللہ اپنے بندوں میں سب سے زیادہ علما کا لحاظ کرتا ہے۔
اسلام کے پاس ایک بہت قیمتی سرمایہ ہے جسے چھوڑ کر وہ کچھ بھی نہیں رہ جاتا۔ وہ ہے نظریہءآخرت۔ یا  بعث بعد الموت۔ اس کی بنیاد یہ ہے کہ وہ زندگی میں کسی مقصد یا غایت پر یقین رکھتا ہے۔ اعمال کا حساب اسی کو دینا ہوگا جو کسی کا م پر معمور کیا گیا ہو۔  مغربی مادی تہذیب نہ زندگی کا کوئی مقصد سمجھتی ہے نہ غایت۔  اس لیے اس کے یہاں کوئی حساب کتاب بھی نہیں ہے۔ وہ تو کائنات کو اتفاقات کا ایک لا متناہی سلسلہ مانتی ہے۔ کیچڑ میں رینگنے والا کیڑا اور خلا تک جانے والا انسان زندگی میں دونوں برابر کے شریک ہیں۔ رینگتے ہوئے کیڑے ترقی کرکے پرندے اور چوپائے بن گئے۔ چوپایوں میں سے ایک قسم بندر بن گئی دوسری انسان۔ ہر جاندار اپنے ماحول میں خود کو ڈھالنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اور بقا کے لئے مسلسل جد جہد میں لگا ہوا ہے۔ اس نظریہ کی رو سے انسان کا خود کو اشرف المخلوقات کہنا اپنے منہ میاں مٹھو بننا ہے۔ انسان سے زیادہ جہد للبقا میں کامیاب وہ رینگنے والے کیڑے ہیں جو کروڑوں برس سے ایک سی حالت مین زندہ ہیں۔ خواہ کیچڑ میں پڑے ہیں۔ مگر انسان سے زیادہ مطمئن ہیں۔ مغربی نظریہ حیات میں انسان ایک بے دم کا لنگور ہے۔ جو ایک بے مقصد زندگی گزارنے کے لئےاسی طرح پیدا ہوا ہے جیسے مکھی مچھر جھینگے اور کیچوے پیدا ہوئے ہیں۔  اشرفیت اور افضلیت کہاں سے آ گئی؟ جب جہد للبقا مین سب برابر ہو گئے جو احترام انسانیت کا نظریہ بھی باطل ہو گیا۔ 
مگر قرآن کریم بار بار عظمت انسانیت کا نعرہ بلند کر رہا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ زندگی ایک اتفاقی عمل نہیں ہے۔ اس کا کوئی عامل ہے جو خالق ہے ۔ رب ہے۔ رازق ہے۔۔ محی ہے ۔ ممیت ہے۔ قاہر ہے۔ قادر ہے۔۔۔وغیرہ۔
اس نے انسان کو کسی مقصد سے پیدا کیا ہے۔ 
افحسبتم انما خلقنکم عبثا و انکم الینا لا ترجعون 95-4
وہ زندگی کے اعمال کا حساب لیگا ۔ اس نے انسان کو شرف و کرامت کے ساتھ پیدا کیا ہے۔ 
 و لقد کرمنا بنی آدم 17-70
اسے اپنے اوصاف سے متصف کیا ہے۔
و نفخت فیہ من روحی۔ 15-29
اور دوسری مخلوقات کے مقابلے میں بہترین قوام سے انسان کو اٹھایا ہے۔
لقد خلقنا الانسان فی احسن تقویم۔ 95-4

Thursday, June 20, 2013

جدید سائنس اور اسکا مقصد وجود 5

اسلام ترقی علوم کے خلاف نہیں تھا، اسی لئے عہد عباسی میں دار الحکمۃ قائم ہوا۔ سنسکرت اور یونانی اور فارسی سے طب، فلسفہ اور منطق کی کتابوں کے تراجم ہونے لگے۔ سائنس کی ترقی سے اسلام کو کوئی خطرہ نہیں تھا، اس لیے کہ قرآن نے خود بار بار دعوت دی ہے کہ   اپنے نفس میں غور کرو 'و فی انفسکم افلا تبصرون 21-51- مظاہر کائنات میں غور و تدبر سے کام لو۔ افلا ینظرون الی الابل کیف خلقت۔ و الی السماء کیف رفعت 18,17.88۔ پھر اس پر غور کرو کہ جو شے عدم سے وجود میں آئی ہے کیا وہ پھر وجود سے عدم میں نہ جائےگی اور جو اسے ایک بار لباس وجود دے سکتا ہے کیا اسے یہ قدرت حاصل نہیں ہے کہ وہ بوسیدہ ہڈیوں میں پھر جان ڈال دے۔
غرض تفکر فی الکائنات اور حکمت تکوین میں تامل و تدبر قرآن کی اساسی تعلیم ہے۔ جتنا کائنات کے اسرار سے پردے اٹھاتے جاؤگے اللہ کا خوف اپنے دل میں زیادہ پاؤگے۔ انما یخشی اللہ من عبادہ العلماء
عیسائیت نے سائنس کی مخالفت اس لئے کی تھی کہ وہ اسلام کی طرح حکمت تکوینی میں غور کرنے کی دعوت نہیں دیتی تھی۔ اسے اپنی بنیادیں متزلزل ہوتی نظر آئیں تو اس نے سائنس کی مخالفت میں محاذ قائم کر لیا اور چونکہ اس کی بنیاد عقلیت پسندی پر نہیں تھی، اسلئے سائنس سے اسے شکست کھانی پڑی۔ آخر سمجھوتہ اس پر ہوا کہ علوم طبیعیات سے  خدا کو بے دخل کر دیا جائے۔ تم اپنے گھر خوش ہم اپنے گھر خوش۔
اسلام نے کبھی عقلیت کی نفی نہیں کی اور طبیعیات و ما بعد الطبیعیات کے رشتے کو جورے رکھا۔ اس کی بہتریں مثال یہ واقعہ ہے کہ جب حضرت ابراہیم بن محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا انتقال ہوا، اتفاق سے اسی دن سورج گہن بھی ہو گیا۔ لوگوں نے کہنا شروع کیا کہ یہ ابراہیم کی وفات کے باعث ہوا ہے، صدمے سے سورج کا کلیجہ بھی شق ہو گیا۔ ایک بے پڑھی لکھی قوم کے عقیدت مندوں کو اس عقیدے پر اور بھی راسخ کر دینا کچھ دشوار نہ تھا۔ ادنا درجہ یہ تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اس موقعہ پر خاموش رہتے، نہ ان کی تائید کرتے نہ تردید۔ مگر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: ایھا الناس ان الشمس و القمر ایتان من ایات اللہ لا ینکسفان لموت احد ولا لحیاۃ احد فاذا رایتم ذالک فافزعوا الی المساجد----- و دمعت عیناہ۔ (بخاری، مسلم، مسند احمد، الدارمی)
لوگوں چاند سورج اللہ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں۔ یہ کسی کی موت یا زندگی پر نہیں گہناتے، جب تم ایسا دیکھو تو مسجدوں میں جاؤ (عبادت کرو)۔۔۔۔۔ یہ کہتے ہوئے آپ کی آنکھیں ڈبڈبا گئیں۔
اس روایت میں بھی فافزعوا الی المساجد کے الفاظ طبیعیات و ما بعد طبیعیات کے رشتے  
 کی گواہی دے رہے ہیں۔ مسلمان کبھی علوم سے بدکے نہیں۔ یونانی فلسفے کے عربی تراجم نے بہت سے عقائد پر کاری ضرب لگائی اور علما کو لا یعنی بحثوں میں الجھا لیا، تب بھی انھوں نے یونانی علوم پر اپنا دروازہ بند نہیں کیابلکہ ان فلسفیوں کے نظریات کو تحقیق کی کسوٹی پر پرکھااور یونانی فلسفیوں کو مجبور کر دیا کہ وہ افلاطونی نظریات پر نظر ثانی کریں۔ یونانی فلسفہ عقیدے کی جڑ کاٹتا تھا، مسلمان علما نے اس کا مقابلہ کرنے کے لیے 'علم الکلام' ایجاد کیا، جو عقیدے کے اثبات کے ساتھ حیات و کائنات کے مسائل پر بحث کر سکتا ہے۔

جدید سائنس اور اسکا مقصد وجود 4

جدید اصطلاح میں علم سائنس ہی کو کہتے ہیں۔ اس سے یہ سمجھنا غلط ہوگا کہ علم کے بارے میں جو کچھ کہا جا رہا ہے وہ صرف علم دین کی حد تک محدود ہے۔ علماے قدیم نے تمام علوم کو سمیٹ کر دو خانوں میں بانٹ دیا: ایک کو وہ 'منقول' کہتے ہیں جس کا تعلق تاریخی شعور سے ہے۔ دوسرے کو 'معقول' کہا جاتا ہے جس کی بنیاد عقلیت پسندی پر ہے۔
مشہور مقولہ ہے : 'العلم علمان علم الادیان و علم الابدان'۔ یعنی علم کی دو قسمیں ہیں فزکس اور میٹا فزکس۔ ان میں سے کسی کو کمتربتایا گیا ہے ، نہ ایک کو دوسرے پر ترجیح دی گئی ہے۔ لیکن اسلامی سائنٹفک نظریہ یہی ہے کہ علم کی ان دونوں شاخوں کو ایک وحدت کے روپ میں دیکھا جائے، نہ ان کو ایک دوسرے سے بیگانہ سمجھا جائے، نہ ان میں سے کسی کی نفی کی جائے۔ مغربی سائنسی فکر نے فزکس اور میٹا فزکس کے درمیان ایک دیوار کھڑی کر دی جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مذہبی عقائد سے عقلیت معدوم ہو گئی اور سائنس عقیدے سے محروم ہو گئی۔ ریاضی اور الجبرا میں بال کی کھال کھینچنے والی قوم آج بھی تثلیث میں وحدت پر ایمان رکھتی ہے، چاہے ریاضی لاکھ سر پٹکے کہ تیں ایک اور ایک تین کیسے ہو سکتے ہیں، مگر انھوں نے بنا کر دکھا دیا۔
اسلام میں بالکل ابتدا ہی سے حفظ روایات کا اہتمام ہوا، پھر تدوین و تحقیق شروع ہو گئی، اور اصول و کلیات وضع ہونے لگے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ابو الاسود الدؤلی کو عربی زبان کی قواعد لکھنے پر معمور کیا تو یہ کوئی معمولی کارنامہ نہیں تھا۔ عھد بنی امیہ کے آغاز ہی میں علم الکیمیا خاصی ترقی کر چکا تھا۔ یزید ابی سفیان کو کیمیا سازی کا شوق تھا اور کشتے پھونکنے کے لئے اس 
نے متعدد قسم کے تیزاب ایجاد کر لئے تھے۔



    

Saturday, June 15, 2013

جدید سائنس اور اس کا مقصد وجود 3

اس تاریخی شعور کا فطری اقتضا یہ تھا کہ ایک واضع سماجی شعور بھی پیدا ہو۔ اس کا اندازہ اسلام کے سماجی قوانین کو دیکھ کر کیا جا سکتا ہے۔ حضرت عمر فارؤق رضی اللہ عنہ نے اپنے عہد خلافت میں جو اصلاحات نافذ کیں وہ ایک نہایت 
ترقی یافتہ سماجی شعور کا پتہ دیتی ہیں۔ انھوں نے اعلان کیا
و للہ لئن بقیت الی ھذہ العام المقبل لا لحقن آخر الناس 
باولھم و لاجعلنھم رجلا واحدا
خدا کی قسم اگر میں آنے والے سال تک زندہ رہ گیا تو آخری آدمی کو پہلے سے ملا دونگا اور تمام انسانوں کو ایک جیسا بنا کر چھوڑونگا۔
دوسرے موقعہ پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا 
وللہ لئن سلمنی اللہ لادعن ارامل اھل العراق لا یحتجن الی احد من بعدی ابدا
خدا کی قسم اگر اللہ نے مجھے سلامت رکھا تو عراق کی بیواؤں کو اس حالت میں چھوڑوں گا کہ وہ میرے بعد ہر گز  کسی کی دست نگر نہ رہیں۔
عہد حاضر کےنظام ہائے حیات میں سماجی تحفظ   کی اس سے زیادہ کون سی 
ضمانت دی گئی ہے؟  
تاریخی اور سماجی  شعور کسی قوم میں اتنا ترقی یافتہ ہو اور سائنسی شعور  موجود نہ ہو یہ ممکن ہی نہیں ہے۔ اس لیے اسلام اپنے سیاسی انتشار کے دور میں بھی کبھی عقلیت اور سائنس کا حریف نہیں رہا ۔ قرآن کریم کی پہلی وحی کا پہلا لفظ اقراء ہے۔ یعنی پڑھ۔ مگر اس کے آگے وہ بات ہے جو جدید مغربی سائنسی فکر کو نہیں بھاتی۔ یعنی اسم ربک الذی خلق یہیں سے اسلامی مذہبی فکر اور مغربی  سائنسی فکر کا اختلاف شروع ہو جاتا ہے اور یہ فاصلہ بڑھتے 
بڑھتے بعد المشرقین میں تبدیل ہو جاتا ہے۔
ہمارے قدیم علما اور مفسرین بھی جب اولیات تخلیق سے بحث کرتے ہیں تو کہتے ہیں کہ اللہ نے سب سے پہلے قلم کو پیدا کیا۔ قرآن قلم کی حرمت کی قسم کھاتا ہے ن والقلم و ما یسطرون (1-68) اور قلم کو وسیلئہ علم سمجھتا ہے۔ علم بالقلم  (4-96) اور علم وہ ہے جو سن سے پہلے آدم علیہ السلام کو ودیعت کیا گیا اور جو اس کے لیے اشرف المخلوقات ہونے کا سبب بنا۔ و علم آدم الاسماء کلھا (31-2) یہ تعلیم خود مبداء فیاض سے ملی تھی، اسلئے انسان کو ملائکہ سے بھی افضل قرار دیا گیا اور کہا کہ انی اعم ما لا تعلمون (30-2) دوسرے مذاہب میں طاقت کے مختلف مظاہر کو دیوتا کہا جاتا ہے اور انسان سے یہ مطالبہ کیا جاتا ہے کہ وہ ان کو سجدہ کرے۔ یہاں فرشتوں کو (جو بمنزلہ دیوتا ہیں اور لفظ ایل بمعنی الہ جن کے نام کا جزو ہے) حکم دیا جاتا ہے کہ انسان کے سامنے سجدہ ریز ہوں۔  
و اذ قلنا للملائکۃ اسجدو لآدم فسجدو الآ ابلیس۔ ابی واستکبر و کان من الکافرین۔ (34-2) ابلیس نے سجدہ کرنے سے انکار کیا، یعنی وہ فرشتوں کو انسان سے افضل ماننے والوں میں سے تھا، اس لیے اسے ابد تک کے لیے مظہر شر و فساد قرار دے دیا گیا۔ اس لیے کہ خیر و اصلاح انسانی عظمت کا اعتراف کرنے ہی میں ہے اس سے زیادہ عقی اور سائنسی رویہ کیا ہو سکتا ہے؟ علم چوں کہ شرف انسانیت ہےاس لیے اس کا احترام بھی واجب قرار دیا گیا۔یعنی ادنا درجہ یہ ہے کہاگر خود علم حاصل نہ کر سکے تو علما سے محبت اور ان کا احترام کرے- اور علم کے پانچ مدارج مقرر کیے:
اول العلم الصمت و ثانی الاستماع و الثالث الحفظ و الرابع العمل الخامس نشرہ۔

                                    

Friday, June 14, 2013

جدید سائنس اور اس کا مقصد وجود 2

نظریہء آخرت کو بھی عقل اور منطق کی روشنی میں پرکھا جا سکتا ہے۔ اسے کے سوا معاملات اور معاش کے جتنے احکام ہیں وہ خالصۃ عقل پر مبنی ہیں۔ اسلام واحد مذہب ہے جو تاریخ کی روشنی میں پیدا ہوا ہے۔ جس کے رسول صلی علیہ و سلم کی زندگی اور افعال و اقوال کو محفوظ رکھا ہے۔ جس کے رسول پر نازل ہونے والی کتاب تحریف سے پاک ہے اور جس مذہب کے پیروؤں نے ہر دور میں تاریخی شعور کا ثبوت دیا ہے۔تاریخی شعور عقلیت کی نفی کے ساتھ نہیں رہ سکتا ۔ اس لئے ہم کہ سکتے ہیں کہ مذہب اسلام میں وہ عقیت پسندی موجود ہے جو سائنس کی نشوو ارتقا کے لیے شرط اول 
قدم ہے۔
اسلام کا تاریخی شعور اس امر سے ظاہر ہے کہ ابتدا ہی سے مسمانوں نے تاریخی وقائع کو محفوظ رکھنے کا اہتمام کیا اور   اسے اصول شہادت کی بنیاد پر فراہم کیا۔ ان روایات کے ساڑھے پانچ لاکھ ناقلین کے حالات نقد و تحلیل کے ساتھ جمع کئے اور متضاد روایات کو پرکھنے کے لیے علم الاصول وضع کیا۔ اسلام کی زندگی کے ایک ہزار برسوں میں جتنا تاریخی سرمایہ ہمیں ملتا ہے وہ دنیا کے کسی دوسرے بڑے مذہب کو نصیب نہیں ہو سکا۔

Thursday, June 13, 2013

جدید سائنس اور اسکا مقصد وجود 1



سائنس کو مذہب کا حریف سمجھا جاتا ہے لیکن یہ محض غلط فہمی ہے۔ دونوں کا دائرہء کاربالکل مختلف ہے۔ اس صدی میں قرآن مجید کے بہت سے بیانات کو سائنس اور تاریخ کی کسوٹی پر پرکھنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اگرچہ ابھی تک سائنس یا تاریخ نے قرآن کے کسی بیان کو جھٹلانے میں کامیابی حاصل نہیں کی ہے، لیکن بالفرض اگر ایسی کوئی صورت سامنے آتی بھی ہے تو بھی اسے قطعیت حاصل نہیں ہوتی۔ وہ محض تحقیق کی ایک منزل ہوتی ہے اور اسکا امکان باقی رہتا ہے کہ تحقیق مزید ہمیں اسی منزل تک پہنچا دےجس کی طرف قرآن اپنی مخصوص بلیغ زبان میں اشارہ کر رہا ہے۔ 

مذہب کا مقصد شرف انسانیت کا اثبات اور تحفظ ہے۔ وہ انسان کامل کا نمونہ پیش کرتا ہے۔ سائنس کے دائرہءکار میں یہ باتیں نہیں ہیں نا ہی کوئی بڑے سے بڑا سائنسدان انسان کامل کہانے کا مستحق ہو سکتا ہے۔ اس لئے مذہب اور سائنس کا تصادم محض فرضی اور خیالی ہے۔ اور اس کا سبب یہ ہے کہ مذہبی عقائد کی بنیاد عموما عقل اور منطق پر نہیں ہے۔ اس میں بڑا حصہ ایمان بالغیب یا توہمات یا اساطیر کا بھی پایا جاتا ہے ۔اسلام نے ایمان بالغیب کو باقی رکھا ہے کیوں کہ یہی نظریہءآخرت کی بنیاد بن سکتا 
ہے مگر توہمات اور اساطیر کو بالکل بے دخل کر دیا ہے۔

جاری ہے۔۔۔  

Friday, June 7, 2013

ڈاکٹر نثار احمد فارؤقی کا خاندانی پس منظرـ جنید اکرم فارؤقی

 ڈاکٹر نثار احمد فارؤقی شمالی ہند کی پر فضا اور مردم خیز بستی  امروہہ کے ایک علمی اور مذہبی خانوادے کے چشم و چراغ ہیں۔ ان کے خاندان میں علم و عرفان کی روایات صدیوں پرانی ہیں۔ روحانی سرمائے کے ساتھ ساتھ دنیاوی تمول اور اعزاز بھی موروثی رہا ہے۔ اس خاندان سعادت نشان میں میدان علم و آگہی کے یلہ تاز بھی ملیں گے۔  اور اکثر مناصب جلیلیہ پرسرافراز بھی۔ قرون سابقہ میں عوام سے خراج عقیدت حاصل کرنے والےمملکت فقر و درویشی کے تاجدار بھی ہیں اور اپنے مواضعات و معافیات میں رعیت سے باج اراضی وصول کرتے ہؤئے شہ سوار بھی۔ صاحبان استغنا بھی ہیں اور والیان غنا بھی۔ دینی اور دنیوی دونوں اعتبار سےاس خانوادے کو شان امتیاز و اقتدار حاصل رہی۔ 
ڈاکٹر  نثار احمد فارؤقی کا سلسلئہ نسب بواسطہ شیخ الاسلام حضرت بابا فرید شکر گنج رحمتہ اللہ علیہ خلیفہ دوم امیر المؤمنین سیدنا حضرت عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ سے متصل ہوتا ہے۔ بایں طریق  

 ؒڈاکٹر نثار احمد فاروقی
  1.   ؒبن مولوی تسلیم احمد
  2.  ؒبن مولوی حسین احمد
  3.  ؒبن ڈپٹی بشیر احمد فارؤقی
  4.  ؒبن چودھری ابدال محمد
  5.  ؒبن منشی اولاد محمد
  6.  ؒبن چودھری عبدالغفور ثانی
  7.  ؒبن چودھری محمد حارث
  8.  ؒبن چودھری شہاب الدین
  9.  ؒبن چودھری بدر عالم
  10.  ؒبن شیخ زادہ محمد معمور
  11.  ؒ بن حضرت حاجی عبد الغفور
  12.  ؒبن محمد مظفر
  13.  ؒبن شیخ محمد صلاح
  14.  ؒبن محمد صادق عرف شیخ مجاہد
  15.  ؒبن شیخ زادہ محمد طاہر فاروقی 
  16.  ؒبن حضرت حاجی موسی
  17.  ؒبن خواجہ ضیاالدین
  18.  ؒبن خواجہ بہاالدین معروف بہ بابا فرید
  19.  ؒبن خواجہ مجیر الدین
  20.  ؒ بن شیخ سالار
  21.   ؒبن شیخ علی
  22.  ؒبن شیخ نظام الدین شہید
  23. بن حضرت بابا فرید الدین مسعود شکر گنج فاروقی رحمۃ للہ علیہ
  24.  ؒبن قاضی جمال الدین سلیمان
  25.  ؒبن قاضی شعیب 
  26.  ؒبن شیخ احمد یوسف شہید
  27.  ؒبن شیخ شہاب الدین احمد فرخ شاہ کابلی
  28.  ؒبن نصیر الدین محمود
  29.  ؒبن اسحاق معروف بہ سلیمان شاہ
  30.  ؒبن مسعود
  31.  ؒبن عبدللہ معروف بہ واعظ الاصغر
  32.  ؒبن شیخ ابو الفتح معروف بہ واعظ الاکبر
  33.  ؒبن اسحاق
  34.  ؒبن ابراہیم
  35.  ؒبن ناصر
  36.  ؒبن عبدللہ
  37.  ؒبن عمر 
  38.  ؒبن حفص
  39.  ؒبن عاصم
  40.  ؒبن عبدللہ
  41. بن سیدنا عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ



Seerat e Tayyiba 6

۔۔۔اسی طرح ابنِ سعد نے ایک فصل میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے دونوں کاندھوں کے درمیان مُہرِ نبوت کے بارے میں روایات دی ہیں۔ آپ کے بالوں کے بارے میں جو روایات ملتی ہیں انہیں جمع کر دیا ہے۔ اور آپ کے سرِ مبارک اور ریشِ مقدس میں جو سفید بال تھے ان کا وصف جداگانہ فصل میں بیان ہوا ہے۔
آپ کو سفید لباس پسند تھا۔ کبھی سرخ جوڑا بھی زیبِ تن فرماتے تھے۔ آپ کے پاس ہاتھی دانت کی ایک کنگھی بھی تھی جس سے بالوں کو سنوارتے تھے۔
ابن سعد نے آپ کی تلواروں ،زرہ بکتر، ڈھال، نیزے، خچر، گھوڑے، اور اونٹوں کے لئیے بھی علیحدہ علیحدہ باب رکھے ہیں۔
اسکے بعد رسول اللہ کے گھروں اور حجروں کا بیان ہوا ہے۔ آں حضرت کے نو گھر اور حجرے تھے۔ ان میں ازواج مطھرات رہتی تھیں، یہ گارے اور پکی اینٹوں سے بنائے گئے تھے۔
الطبقات الکبیر کی دوسری جلد میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے غزوات و سرایا کا بیان ہوا ہے۔ پہلے ابن سعد نے اس سے بحث کی ہے کہ کل مغازی کی تعداد کتنی ہے، یہ 37-47 تک بتائی گئی ہے۔ پھر ہر غزوہ اور سریہ کے نام سے بحث کی ہے، ان کا زمانہ وقوع کیا تھا اور اس میں کیا پیش آیا تھا۔
ابن سعد نے بتایا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے چار عمرے کئے اور ہر عمرہ ماہ ذی قعد میں کیا۔ آپ نے صرف ایک ہی حج کیا۔ یہ پہلا اور آخری حج تھا۔ 25 ،ذی قعد کو آپ مدینہ سے بر آمد ہوئے۔ تمام ازواج مطھرات بھی ساتھ تھیں۔ اس موقعہ پر آپ نے خطبہء حجہ الوداع ارشاد فرمایا جس کا متن ابن سعد نے مختلف روایتوں سے دیا ہے۔ بیت اللہ کا طواف آپ نے اپنی اونٹنی پر بیٹھ کر کیا۔ چاہِ زمزم کے پاس پہنچ کر ڈول سے پانی نکالا۔ اسے نوش فرمایا اور باقی پانی میں اپنا لعابِ دہن شامل کرکے کنویں میں واپس ڈال دیا۔
ابن سعد نے حدیث قرطاس بھی تفصیل سے بیان کی ہے۔ ابن عباس نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جمعرات کو بیمار ہوئے تھے۔
حضرت عائشہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے مرض الموت میں حضرت فاطمہ زہرہ رسول اللہ کی سی چال چلتی ہوئی تشریف لائیں۔ آپ نے انھیں اپنے دائیں یا بائیں پہلو کی طرف بٹھایا اور سرگوشی میں کچھ فرمایا تو حضرت فاطمہ رونے لگیں، پھر آپ نے کچھ فرمایا تو فوراً وہ ہنسنے لگیں۔ حضرت عائشہ نے پوچھا کہ رسول اللہ
نے کیا فرمایا تو حضرت فاطمہ نے فرمایا کہ یہ راز کی بات ہے میں نہیں بتاونگی۔ بعد میں انہوں نے بتایا کہ رسول اللہ نے فرمایا تھا کہ میرے اہل بیت میں سب سے پہلے تم مجھ سے ملوگی اور تم جنت میں تمام عالم عورتوں کی سردار ہو۔
سیرت کی جو تفصیلات ابن سعد نے فراہم کی ہیں وہ ایک بنیادی خاکے کی حیثیت رکھتی ہیں۔ وہ حتہ الامکان تاریخ اور سنہ بتانے کا بھی التزام کرتا ہے اور تاریخوں کے اختلاف کی طرف بھی اشارہ کردیتا ہے۔ ایک ہی واقعہ کے لئے مختلف راویوں سے ملنے والی روایات علیحدہ سلسلہ اسناد کے ساتھ درج کرتا ہے۔ اور کہیں کہیں محاکمہ بھی کرتا ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے آخری ایام، مرض، وفات، تدفین، کی تفصیلات طبقات کی دوسری جلد میں بیان ہوئی ہیں۔
سیرۃ نبوی کی تفصیلات کے علاوہ طبقات ابن سعد میں صدر اسلام کی پوری معاشرت کے بارے میں معلومات کا ایسا عظیم الشان ذخیرہ جمع کر دیا گیا ہے کہ ان بکھری ہوئی جزوی تفصیلات کی مدد سے ہم اسلام کی ابتدائی تیں صدیوں کی پوری تصویر تیار کر سکتے ہیں۔
ابن سعد ہمیں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی اولاد کے نام بھی بتاتا ہے۔ اور انکا حلیہ بھی بہت تفصیل سے بیان کرتا ہے۔