Thursday, June 13, 2013

جدید سائنس اور اسکا مقصد وجود 1



سائنس کو مذہب کا حریف سمجھا جاتا ہے لیکن یہ محض غلط فہمی ہے۔ دونوں کا دائرہء کاربالکل مختلف ہے۔ اس صدی میں قرآن مجید کے بہت سے بیانات کو سائنس اور تاریخ کی کسوٹی پر پرکھنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اگرچہ ابھی تک سائنس یا تاریخ نے قرآن کے کسی بیان کو جھٹلانے میں کامیابی حاصل نہیں کی ہے، لیکن بالفرض اگر ایسی کوئی صورت سامنے آتی بھی ہے تو بھی اسے قطعیت حاصل نہیں ہوتی۔ وہ محض تحقیق کی ایک منزل ہوتی ہے اور اسکا امکان باقی رہتا ہے کہ تحقیق مزید ہمیں اسی منزل تک پہنچا دےجس کی طرف قرآن اپنی مخصوص بلیغ زبان میں اشارہ کر رہا ہے۔ 

مذہب کا مقصد شرف انسانیت کا اثبات اور تحفظ ہے۔ وہ انسان کامل کا نمونہ پیش کرتا ہے۔ سائنس کے دائرہءکار میں یہ باتیں نہیں ہیں نا ہی کوئی بڑے سے بڑا سائنسدان انسان کامل کہانے کا مستحق ہو سکتا ہے۔ اس لئے مذہب اور سائنس کا تصادم محض فرضی اور خیالی ہے۔ اور اس کا سبب یہ ہے کہ مذہبی عقائد کی بنیاد عموما عقل اور منطق پر نہیں ہے۔ اس میں بڑا حصہ ایمان بالغیب یا توہمات یا اساطیر کا بھی پایا جاتا ہے ۔اسلام نے ایمان بالغیب کو باقی رکھا ہے کیوں کہ یہی نظریہءآخرت کی بنیاد بن سکتا 
ہے مگر توہمات اور اساطیر کو بالکل بے دخل کر دیا ہے۔

جاری ہے۔۔۔  

No comments:

Post a Comment