Wednesday, May 29, 2013

Seerat e Tayyiba 2



آں حضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی مجلس میں دنیا کی باتیں بھی ہوتی تھیں۔ آپ کے سامنے اشعار پڑھے جاتے تھےلوگ ہنستے تو آپ تبسم فرماتے تھے۔ مسجد میں دور جاہلیت کے اشعار اور حکایات بھی سنائی جاتی تھیں، آپ ان سے کبھی تنفر کا اظہار نہ فرماتے تھے۔
آں حضرت کا کلام فصیح و بلیغ تھا۔ ٹھہر ٹھہر کر کلام فرماتےتھے۔ جابر بن عبدللہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ حضور کے کلام میں ترسیل و ترتیل تھی۔ یعنی ما فی الضمیر کو پوری طرح ادا فرماتے اور الفاظ کو وضاحت سے ٹھہر ٹھہر کر بولتے تھے۔ خطبہ ارشاد فرماتے وقت آپ کی آنکھیں سرخ ہو جاتی تھیں، آواز بلند ہو جاتی تھی اور اس میں زور پیدا ہو جاتا تھا۔
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: جب آں حضرت سے کوئی شخص ملتا اور مصافحہ کرتا تھا تو جب تک وہ شخص خود اپنے ہاتھ علیحدہ نہ کر لیتا تھا حضور دست مبارک نہ کھینچتے تھے اور جب وہ رخصت ہوتا تھا تو جب تک وہ منہ نہ پھیر لیتا تھا آں حضرت اپنا روئے مبارک اس کی طرف سے نہ پھیرتے تھے۔ 
راستے میں آپ تیز تیز چلتے تھے اور ادھر ادھر نہ دیکھتے تھے۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں
ما رایت احدا اسرع فی مشیتۃ من النبی صلی اللہ علیہ و سلم
کانت الارض تطوی لہ انا لنجھد و ھو غیر مکترث
میں نے چلنے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے زیادہ تیز رفتار کوئی نہیں دیکھا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ آپ کے لئے زمین لپٹی جا رہی ہے۔ ہم کوشش کرکے بھاگتے تھے اور وہ 
بے تکلف چلتے تھے۔

Friday, May 24, 2013

Seerat e Tayyiba



Trying  to present some of the parts of this Book on Seerah based on Ibn Sad's accounts.

 قدیم اور مستند مؤرخ ابن سعد کی روایت    

آں حضرت کے فضائل و اخلاق اور سیرۃ طیبہ


آں حضرت  صلی اللہ علیہ و سلم کے فضائل و محامد اخلاق و شمائل جو ابن سعد کی جمع کردہ روایات سے ظاہر ہوتے ہیں ان کا ایک قابل ذکر پہلو یہ ہے کہ ان میں کہیں مبالغہ یا تصنع کا شائبہ نہیں ہے۔راویوں نے آں حضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی جو صفات عالیہ بیان کی ہیں وہی ہیں جو ہم آپ کے اعمال و افعال میں مشاہدہ کرتے ہیں۔ ایک مشہور روایت ہے کہ حضرت عائشہ  رضی اللہ عنہا سے پوچھا گیا کہ حضور  صلی اللہ علیہ و سلم کے اخلاق بیان کریں تو انھوں نے فرمایا کہ  آپ کا اخلاق قرآن تھا۔

یعنی جو کچھ قرآن میں لکھا ہے وہ آں حضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا عمل تھا۔ اس سے زیادہ مختصر اور جامع تبصرہ سیرۃ طیبہ پر شاید نہ کیا جا سکے۔ کتب رجال سے حضرت عائشیہ رضی اللہ عنہا کی فصاحت و بلاغت کی گواہی ملتی ہے۔ اور سیرۃ نبوی پر ان کا یہ تبصرہ اس کی مثال ہے۔

حضرت انس رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ آں حضرت صلی اللہ علیہ و سلم تمام انسانوں میں بہترین اخلاق والے تھے۔کبھی سڑک پر زور سے گفتگو نہ فرماتے تھے۔ فحش کا شائبہ بھی 
نہ تھا۔ برائی کا بدلہ نہیں لیتے تھے بلکہ درگزر فرماتے تھے۔
زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے سیرۃ کے بارے میں سوال کیا گیا تو انھوں نے کہا کہ میں آں حضرت صلہ اللہ علیہ وسلم کے پڑوس میں رہتا تھا اور جب وہی نازل ہوتی تھی تو میں ہی لکھتا تھا۔ جب ہم دنیا کا ذکر کرتے تھے تو رسول اللہ صلہ اللہ علیہ و سلم ہمارے ساتھ شریک ہوتے تھے۔ کھانوں کا تذکرہ ہوتا تھا تو آں حضرت صلہ اللہ علیہ و سلم بھی ہماری باتوں میں حصہ لیتے تھے، اور کیا کیا بتاؤں؟
ہشام بن عروۃ نے حضرت عائشہ کی روایت سے بیان کیا کہ حضور صلہ اللہ علیہ و سلم گھر میں ہوتے تھے تو اپنے کپڑوں کو پیوند خود لگا لیتے تھے۔ اور اپنے جوتے کی مرمت خود کر لیا کرتے تھے۔ آں حضرت صلہ اللہ علیہ و سلم نے جہاد فی سبیل اللہ کے سوا کبھی اپنے ہاتھ سے کسی مرد یا عورت کو نہیں مارا۔ جب آپ کے سامنے دو راستے ہوتے تھے تو جو آسان ہوتا اسے اختیار فرماتےتھے۔ آپ شرم و حیا میں کنواری لڑکیوں سے زیادہ شرمیلے تھے۔
آپ کا چہرہءمبارک ایسا آیئنہ تھا کہ جب کوئی بات ناگوار ہوتی تھی آپ کے چہرے پر تاثرات سے معلوم ہو جاتا تھا۔
آپ سے کسی سائل نے کوئی سوال کیا تھا تو آپ نے اسے "نہیں" کہ کر نہ جانا۔ ہر ایک کا سوال پورا کرتے تھے۔ اگر آپ کو کوئی کام نہ کرنا ہوتا تھا تو انکار نہ فرماتے تھے، خاموشی اختیار کر لیتے تھے۔ بیت الخلاء سے باہر تشریف لاتے تو وضو فرماتے تھے۔
آپ کی بے تکلفی کا حال یہ تھا کہ بے پالان کے گدھے پر سواری کرتے اور غلام کے گھر دعوت ہوتی تو تشریف لے آتے۔ کھانے کے بعد اپنی انگلیاں چاٹ لیتے تھے۔ اپنی بکری کو اپنے ہاتھ سے باندھتے تھے۔ آپ کی تعلیم ترک دنیا کی نہیں تھی۔ چنانچہ آپ نے فرمایا:
"میں نماز پڑھتا ہوں ،سوتا ہوں، روزہ رکھتا ہوں، افطار کرتا ہوں، نکاح کرتا ہوں، جو کوئی میری سنت سے انحراف کرے وہ میری امت میں سے نہیں ہے۔"


Thursday, May 23, 2013

The Role of Muslims in modern India- Last Part


ہندوستان کی اکثریت نسل پرست ہے، اکال الامم ہے، اس کی تہزیب میں جارحیت ہے،وہ احیاء پرستی کے نام پر تاریخ کے دھارے کو موڑنے کی کوشش کر رہی ہے، مگر مسلمانوں کو بھی یہ سمجھ لینا چاہئےکہ وہ اسے صرف اپنے اعلی تصور اقدار اور کردار سے مفتوح بنا سکتے ہیں۔ اس میں سب سے اہم،دیر پا اور دور رس عمل تصوف کا ہوگا۔ ہماری خانقاہیں بہت بڑی تجربہ گاہیں اور ہمارے افکار کی نفاست اور نظافت کا دل موہ لینے والا نمونہ بن سکتی ہیں، بشرتہ کہ ہم انہیں اپنی قومی شیرازہ بندی اور ہمسایوں سے تعلقات بہتر کرنے کے لئے استعمال کرنا چاہیں۔ مگر افسوس ہے کہ خانقاہیں تو ختم ہو گئیں، درگاہیں رہ گئی ہیں، ان کی اصلاح کرنا آسان نہیں، کیونکہ اس سے مہتوں کی روزی وابستہ ہے۔ اس المیہ کا ایک رخ یہ ہے کہ خانقاہوں سے علم اٹھ گیا ہے اور علماے تصوف نا پید ہو گئے۔ ورنہ ابتدائی صدیوں میں اسلام دی سب سے زیادہ خدمت صوفیہ ہی نے کی ہے اور اسے یہاں مقبول بنایا ہے۔ یہ صوفیہ عالم دین بھی ہوتے تھے،اسلئے ان کی تربیت میں گہری تاثیر ہوتی تھی۔
ہندوستانی سماج میں رہ کر ہمیں ایک نہایت اہم نکتے کو بھی سمجھنا ہوگا جسے ہمارے صوفیہ نے خوب سمجھا تھا، لیکن علماء نے اس کی کبھی حوصلہ افزائی نہیں کی، اور وہ علاقائی زبانوں کی قوت و اہمیت اور اثر ونفوذ کے سمجھنے کا مسئلہ ہے۔ شیخ نجم الدین کبری نے مرصاد العباد کی وجہ تالیف میں لکھا ہے کہ "افعل ولا تفعل کہنے سے زیادہ مؤثر یہ ہے کہ کن یا مکن کہا جائے"۔
عربی بلا شبہ قرآن کی زبان ہے۔ اسلام کا بنیادی سرمایہ بھی اسی زبان میں ہے اور اس نے ملی وحدت کو باقی رکھنے میں بھی نہایت اہم رول ادا کیا ہے، لیکن مسلمان ہونے کے لئے عربی جاننا لازمی نہیں ہے۔ پچھلی صدیوں میں ہمارے علماء نے اگر علاقائی زبانوں کو سمجھا ہوتا تو آج ہندوستان کا نقشہ ہی دوسرا ہوتا۔ یہاں بعض ایسے مذاہب بھی پیدا ہوئے جن پر اسلامی تعلیمات کا گہرا اثر ہے، مگر وہ اسلامی دھارے سے اس لئے کٹ گئے کہ ہم انہیں صرف عربی پڑھانا چاہتے تھے۔اگر ہم نے اب بھی علاقائی زبانوں سے بے گانگی کا رویہ باقی رکھا تو اس کا نقصان بھی خود ہمیں ہی پہنچے گا۔
مسلمانوں نے انگریزی تعلیم کو قبول کرنے میں بہت دیر کر دی تھی۔ ورناکیولر مدارس کا جال جو میکالے رپورٹ کے بعد پھیلایا گیا تھا، اس میں مسلمان بچیوں کی تعداد صفر تھی اور مسلمان بچے بھی بہت کم شریک ہوئے تھے۔ مگر جب ورناکیولر مدارس سے پڑھے ہوئے لوگوں کو روزگار ملنے لگے تو مسلمانوں کا کسی قدر التفات ادھر ہوا۔ اعلی تعلیم کے سارے شمالی ہند میں دو ہی کالج تھے۔ غیر مسلموں کے تعلیمی ادارون کی تعداد بہت ہو چکی تھی اور جب وہ جامعاتی تعلیم کی حدوں میں آ چکے تھے، تب ہم نے مڈل کلاس تک پڑھنا سیکھا تھا۔ نئے قومی تعلیمی منصوبوں کو اپنانے میں بھی اگر ایسی ہی بے التفاتی کا مظاہرہ کیا گیا تو اس سے ہندوستانی مسلمانوں کی پسماندگی نا قابل اصلاح حد تک پہنچ جائے گی۔ ہمیں اپنے تعلیمی ادارون کی طرف پورے خلوص و انہماک سے توجہ کرنی ہوگی اور یہ اصلاح ابھی ثانوی کے مرحلے تک ہونی بہت ضروری ہے۔
خلاصہء کالم یہ کہ مسلمانوں کو اپنی تہزیبی انفرادیت اور اپنی شناخت باقی رکھتے ہوئے پورے ہندوستانی سماج کا ایک مفید اور فعال عنصر بننا ہے اور اپنے گرد و پیش پر پورے شعور کے ساتھ غور کرنا ہے، ورنہ سنت الہیہ نہ کسی لے لئے بدلی ہے، نہ وہ مسلمانوں کے لیے بدلنے والی ہے۔
یہ مقالہ مرکزی اسلامی حیدرآباد کے عالمی سمینار (یکم،2،3 اگست 1986ء) کے موقعہ پر پڑھا گیا۔  

Wednesday, May 22, 2013

The Role of Muslims in modern India-4


مسلمانوں کے اندرونی اجتماعی نظام میں زکاۃ کا ادارہ ایک ایسا انسٹیٹیوشن ہے جس کی مثال کسی دؤسرے مذہب میں نہیں ملتی۔ یہ ملت کی معاشی مساوات کا ضامن بھی ہے اور کمزور افراد کو سماجی تحفظ بھی فراہم کرتا ہے، مگر افسوس ہے کہ ہم نے اجتہاد کا دروازہ خوف سے اور زکاۃ کے مرکزی نظام کا دروازہ لالچ کی وجہ سے بند رکھا ہے۔
اب اس مرکزی نظام کا احیاء تو آسان نہیں ہے، لیکن کاش ہم نے اپنے اوقاف ہی کو نظم و ضبط اور امانت و دیانت کے ساتھ چلا لیا ہوتا۔ صرف دہلی شہر کے بارے میں اندازہ ہے کہ کم سے کم تین سو کروڑ کی مالیت کے مسلم اوقاف موجود ہیں جن کی ماہانہ آمدنی تین لاکھ بھی نہیں ہے۔ اسی سے پورے ہندوستان کے اوقاف کا حال سمجھ لیجیے۔
فطرت کے اصول یہ ہے کہ جو مخلوق کمزور ہو، خطرات میں گھری ہوئ ہو، اس میں دفاعی قوت پیدا ہوجاتی ہے۔ وہ زیادہ نظم اور اتحاد کے ساتھ زندگی گزارتی ہے،انسانی معاشرہ میں بھی یہی اصول کا فرما ہے، صرف یہودیوں کی مثال کافی ہے، جو عددی حیثیت سے بہت قلیل ہیں مگر ان کی اس کمزوری نے ساری مخفی صلاحیتوں کو بیدار کر دیا ہے، اور سچ پوچھئے تو آج کی دنیا پر یہودی ذہن کی حکمرانی ہے۔ اس صدی کا سب سے بڑا اور چھا جانے والا معاشی فلسفہ کمیونزم ایک یہودی ذہن کی پیداوار ہے، اسی طرح سائنس اور ٹیکنالوجی میں سب سے بڑا نام آین اسٹائن بھی ایک یہودی ہی ہے۔ امریکہ کی معیشت پر یہودی گرفت اتنی مضبوط ہے کہ صدارتی انتخاب کا امیدوار بھی الکشن لڑنے سے پہلے یہودیوں کو دم دلاسے دیتا ہے، اور امریکی کانگریز یہودیوں کے مفادات کے خلاف کوئ فیصلہ نہیں کر سکتی۔
لیکن مجھے سخت حیرت ہے کہ ہندوستانی مسلمان اس فطری اصول کے خلاف کیوں جا رہا ہے؟  ہماری صفوں میں اتحاد کیوں نہیں ہے؟
ہماری ملی اور اجتماعی غیرت بیدار کیوں نہیں ہوتی؟ ہم کیوں اپنے ہی خول میں سمٹے جا رہے ہیں؟ اس کے کچھ اسباب سمجھ میں آتے تو ہیں مگر۔۔۔
افسوس بے شُمار سخن ہائے گفتنی
خوفِ فسادِ خلق سے ناگفتہ رہ گئے

ہم اپنے گرد و پیش سے مفاہمت تو کیا کرتے، اپنی مرضی کے خلاف کچھ سننے کے رودار بھی نہیں رہے۔ ہر جماعت نے امت کی فلاح کا "واحد نسخہ" سوچ رکھا ہے اور اس کے سوا کسی دوسرے نسخے کا تذکرہ سننا بھی اسے گوارا نہیں اور یہ اس کی علامت ہے کہ ہمارے ذہنوں کی کھڑکیاں بند ہو چکی ہیں۔ یہ طرز فکر مطلق العان شہنساہیت کے زمانے میں تو کارآمد تھا لیکن اس جمہوری دور میں اس کے منافع بھی اپنی معنویت کھو چکے ہیں۔ جس نے عالم کی بنیاد حقیقت یعنی " تغیر" کو تسلیم نہیں کیا، وہ زمانے کے ساتھ چل سکتا ہے، نہ مسائل کا 
حل پا سکتا ہے۔ یہی نکتہ اس ارشاد عالی میں بھی پوشیدہ ہے:

ان اللہ لا یغیر ما قوم حتی یغیروا ما بانفسہم۔   الرعد 11  
بے شک الله کسی قوم کی حالت نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنی حالت کو نہ بدلے

نئے ہندوستان کے سماج میں باعزت زندگی گزارنے کے لئے ہمیں اپنے انداز میں کچھ تبدیلی تو ضرور کرنا ہوگی ورنہ جو شے لچکتی نہیں وہ ٹوٹ جاتی ہے۔ یہی قانون فطرت ہے:

و لن تجد لسنتہ اللہ تبدیلا ۔     فاطر3 4
 اورتو الله کے قانوں میں کوئی تغیر نہیں پائے گا

Friday, May 17, 2013

The Role of Muslims in modern India 3



مثال میں فتنئہ تاتار کو ہی یاد کیا جا سکتا ہے جس نے خلافت عباسیہ کی چولیں ہلا کر رکھ دی تھیں اور ایسی زبردست تباہی مچی تھی کہ مستقبل کے لئے امید کی کوئی ہلکی سی کرن بھی نظر نہیں آتی تھی، لیکن انجام کار اسلام ہی نے تاتاریوں کو جیت لیا اور وسط ایشیا میں ان کے ہاتھوں ہی اسلام کی بنیادیں مضبوط ہوئیں۔
تاریخ کی انہیں آزمایشوں میں سے ایک امتحان کا وقت یہ بھی ہے کہ ہندوستان کے مسلمان ایک ایسے معاشرے میں زندہ ہیں جس کی سابق میں کئی مثال نہیں ملتی۔ یہاں وہ ایک آزاد ہکومت کے باشندے ہیں جس کا نظام جمہوریت پر مبنی ہے، وہ نظام سیکولر ہے۔
یعنی امور سیاست کو مذہب سے کوئی دستوری تعلق نہیں ہے۔ حکومت یہاں حکومت کے ووٹوں سے بنتی ہے۔ مسلمان یہاں اقلیت میں ہیں اور کہیں انکے ووٹ 12/13 فیصد سے زیادہ نہیں ہیں، لیکن اگر وہ اپنی اجتماعی قوت کو برقرار رکھیں اور اس رائے کا دؤر اندیشی کے ساتھ استعمال کریں تو وہ فیصلہ کن بھی ہو سکتے ہیں۔
ہندوستانی سماج میں متضاد فکری دھارے موجود ہیں۔ یہاں ترقی پسند ذہن بھی ہیں اور احیائ پسندی بھی ہے۔ تنگ نظری اور عصبیت کبھی اس تصویر کوبہت دھندلا بھی کر دیتی ہے۔ لیکن پورے ہندوستانی سماج کو جس راستے پر جانا ہے اس پر چلنے کے لئے ترقی پسندانہ فکر سے رشتہ توڑ دینا بھی ممکن نہیں ہے۔ ہندوستان ایک ایسا ملک ہے جس میں بہت سی زبانیں بہلی جاتی ہیں اور متعدد مذاہب کے پیرو یہاں بستے ہیں۔ یہ ملک اتنا وسیع ہے کہ یہاں ایک زبان، ایک کلچر اور ایک مذہب کبھی ہوا ہے ، نہ ہو سکتا ہے۔یہاں کے مقامی مذاہب میں بھی کوئی بنیادی وحدت نہیں ہے، کوئی محض رسوم و رواج کا مجموعہ ہے، کسی میں نسل پرستی اور طبقہ واریت کا گہرا رجحان موجود ہے۔ ان تضادات کا نتیجہ یہ ہے کہ ہندوستانی سماج حقیقی مساوات کے تصور سے کبھی آشنا نہیں ہو سکا اور مساوات ہی جمہوریت کا بنیادی پتھر ہے، اسلام کی نظریاتی بنیاد ہی میں وہ مساوات موجود ہے جس سے جمہوریت برگ و بار لاتی ہے۔ نئے ہندوستانی معاشرے کو مسلمانوں کی یہ سب سے 
بڑی دین ہو سکتی ہے۔  
نیا ہندوستان جن راہوں پر جانا چاہتا ہے، یہ راستے کہاں تک جاتے ہیں، اس پر پندوستانی مسلمانوں کو سب سے زیادہ غور و فکر کرنا چاہئیے اور اس کے لئے ملت اسلامیہ کی فکری تعمیر بہت ضروری ہے۔
پچھلے 38 برسوں مین مسلمان دفاعی پوزیشن میں رہے ہیں اور انہیں اپنی شناخت اور اپنی ثقافت کو بچانے ہی کی سب سے زیادہ فکر رہی ہے، وہ مجموعی ہندوستانی سماج کو کچھ نہیں دے پائے ہیں۔
انہیں اس دفاعی مورچے سے ہٹ کر بھی قومی و ملکی مسائل میں گہری دلچسپی لینا چاہئے، اس لئے کہ وہ اس بڑے ہندوستانی سماج کا ایک لازمی حصہ ہیں۔ یہی نہیں انہیں عالمی مسائل سے بھی اتنا ہی تعلق ہونا چاہیئے۔ لیکن مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہندوستانی مسلمان قائدوں کی طرف سے امن عالم کے مسئلے پر کبھی تشویش کا اظہار نہیں ہوتا، وہ روزافزوں ایٹمی اسلحہ کے خلاف کبھی آواز نہیں اٹھاتے بلکہ اس وقت مہلک ہتھیاروں کے سب سے بڑے خریدار مسلم ممالک ہی بنے ہوئے ہیں۔  افریقہ میں بھیانک قحت پڑتا ہے تو انکی صدا بلند نہیں ہوتی۔ وہ صرف اپنے مسائل میں الجھے رہتے ہیں۔ مقامی مسائل بھی اہم ہیں لیکن انہیں امت کے ایک طبقے کی تحویل میں دیا جا سکتا ہے۔ عالمی برادری کا ایک حصہ ہوتے ہوئے عالمی مسائل سے آنکھیں بند رکھنا یا انہیں غیر اہم سمجھنا قوم کے زندہ ہونے کی علامت نہیں۔
اس وقت جو نزہ سلاح کا مسئلہ ہے اس میں مذہب کی قوت سب سے زیادہ مؤثر ہو سکتی ہے۔ اسکے لئے روم کے کلیسا سے تو آواز بلند ہوتی ہے، کسی مسلمان پیشوا کا کوئی بیان نہیں آتا۔ ایسا کیوں ہے؟
ہندوستان ایک وسیع و عریض ملک ہے، اس کی آبادی ستر کروڑ سے زیادہ ہے اور اس میں 78 فی صد باشندے زراعتی زندگی بسر کرتے ہیں، اور دیہاتوں میں رہتے ہیں۔ کروڑوں انسان وہ ہیں جو خط افلاس سے نیچے اور جانوروں سے بدتر زندگی بسر کر رہے ہیں۔ زندگی کی معمولی اور بنیادی سہولتیں بھی انہیں میسر نہیں۔ تعلم کا ابھی ان تک گزر ہی نہیں۔ اس صدیوں کے پس ماندہ طبقہ کو متمدن اور بافراغ زندگی کے معیار تک لانے کے لیے بڑی طویل جدہ جہد اور دؤر رس نتائج پیدا کرنے والی منصوبہ بندی درکار ہے۔ حکومت وقت کے سوچنے کا انداز یہ نہیں ہے اور نہ ہو سکتا ہے کہ مسلمانوں کی 
حالت بہتر کرنی ہے یا ہندؤوں کی۔ 


اصل مسئلہ پسماندہ ہندوستانی سماج کی فلاح اور ترقی کا ہے جس میں مسلمان بھی آ جاتے ہیں۔ سماجی بہبود کی وزارت نے اور دوسرے محکموں نے ایسی صدہا اسکیمیں بنائیں ہیں جنھیں پورا کرکے سماج کا سدھار کیا جا سکتا ہے۔ یہ منصوبے کو آپریٹو سوسائٹیوں اور رجسترڈ رضا کار اداروں کے ذریعے برؤے کار لائے جاتے ہیں۔ لیکن افسوس ہے کہ مسلمانوں نے ان منصوبوں کی اہمیت کو بالکل نہیں سمجھا ہے، انکا ادھر التفات نہیں ہے۔ ایک زمانہ گزرنے کے بعد جب ان اسکیموں کے اثرات ظاہر ہونا شروع ہونگے تو مسلمان دیکھیں گے کہ وہ اور دو تین سو سال پیچھے چلے گئے ہیں۔
آج کی دنیا میں سماجی ترقی کے کام عوام کے اشتراک سے ہوتے ہیں۔ حکومت صرف پلاننگ کرتی ہے، اور اسکے لئے مال و وسائل مہیا کرتی ہے۔ تعلیم بالغان کے منصوبوں پر ہی وزارت تعلیم کروڑوں روپے خرچ کر رہی ہے، اور قبائلی علاقوں میں ایسے بہت سے مرکز کھولے گئے ہیں۔ مسلمان کیوں اس میں حصہ نہیں لیتے؟ میں اسکا کوئی معقول سبب جاننے سے قاصر ہوں۔
یہ سائنس اور ٹیکنالوجی کا زمانہ ہے۔ ہندوستان انتھک جد و جہد کر رہا ہے کہ وہ اس میدان میں ترقی یافتہ ممالک کے برابر نہیں تو انکے لگ بھگ ہی ہو جائے۔ اس میں بڑی حد تک کامیابی ہو رہی ہے۔ ہمارے فولاد کے کارخانے مستقبل میں صنعتی ترقی کی ضمانت ہیں اور صنعتوں سے ترقی یافتہ زرعی آلات بھی پیدا ہوں گے۔ آ یندہ پچاس برسوں میں ملک کا نقشہ یکسر بدل چکا ہوگا۔ سارے ملک میں لاکھوں کارخانے ہونگے، کروڑوں مشینیں ہونگی اور وہ دستکار جو روایتی اوزاروں سے کام لے کر گھریلو صنعتیں تیار کیا کرتے تھے، صرف تاریخ کا ایک حصہ ہوکر رہ جائیں گے۔ مسلمانوں کو اس کا بھی احساس نہیں ہے کہ ان کی زبان و ثقافت کے بعد ان کی چھوتی چھوٹی صنعتوں اور دستکاریوں کا مستقبل بھی خطرے میں ہے۔ انھوں نے صنعتی تربیت کے ادارے قائم نہیں کئے ہیں اور جدید آلات سے کام لینے کی اہمیت کو وہ نہیں سمجھ رہے ہیں۔ انگریزوں کی کامیابی کا سبب بھی یہی تھا کہ وہ بھاری توپوں کے مقابلے میں ہلکی بندوقیں اور رائفل لے کر آئے تھے۔
یہاں قدیم و جدید کی آویزش ضرور موجود ہے، احیاء پسندی اور عصبیت کا بھی زور ہے۔ لیکن تاریخ پر گہری نظر رکھنے والے جانتے ہیں کہ ہر آویزش کے بعد ایک نیا توازن پیدا ہوتا ہے۔ اپنے مستقبل کی فکر کرتے ہوئے ہمیں یہ دھیان رکھنا ہوگا کہ وہ توازن ہمارے حق میں ہو اور اسکے لئے تعلیمی اور صنعتی میدان میں نمایاں طور سے حصہ لینا ازبس ضروری ہے۔ بلکہ تجارت اور ذرائع حمل و نقل کی بھی بڑی اہمیت ہے۔ ہم  نےمسلمانوں کی تعلیم کے ہر پہلو کی فکر نہیں کی۔ تھوڑا بہت دینی تعلیم پر دھیان دیا ہے، لیکن صنعتی تعلیم سے دین کا تحفظ بھی وابستہ ہے۔
یہ صرف ہندوستانی مسلمانوں ہی کا مسئلہ نہیں ہے، یہ چیلنج پورے مشرق کے مسلمانوں کے سامنے موجود ہے۔ مشرق وسطی میں زر سیال بے دردی سے بہایا جا رہا ہے اور اس سے مغرب کی صنعتوں کو فروغ ہوا ہے، اگر مشرق نے صنعتوں کے میدان میں قدم رکھنے سے ایسی بے اعتنائی برتی تو اس کا سیاسی مستقبل غیر یقینی ہے اور وہ کبھی سیاسی و معاشی غلامی سے آزاد نہیں ہو سکتا۔ آزادی صرف اندرونی خودمختاری کا نام نہیں ہے،یہ افرادی اور اجتماعی قوت کے صحیح استعمال کا نام ہے۔ ہندوستانی مسلمانوں نے اپنی افرادی قوت کو ابھی تک مجتمع نہیں کیا ہے، نہ اس کی اہمیت کو سمجھا ہے، نہ اس کا صحیح استعمال کیا ہے۔ یہ قوت اب تک ضائع ہوتی رہی ہے اور اس کا فائدہ صرف حریفوں کو پہنچا ہے۔   
   

Wednesday, May 15, 2013

The Role of Muslims in modern India- 2

مشرق کے پاس صرف نظریات، اخلاقی اقدار اور روحانیت رہ گئی ہے۔ مغرب نے صنعت اور حرفت اور سائنس اور ٹیکنا لوجی میں بہت نمایاں پیشرفت کر لی ہے اور سارے مشرق کو اپنے صنعتی مال کی منڈی اور خام مواد حاصل کرنے کا ذریہ بنا رکھا ہے۔
لیکن اسلام کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ اسنے کہیں بھی اشراکیت کے سامنےمکمل طور پر ہتھیار نہیں ڈالے ہیںوہ اپنی نظریاتی برتری اور انفرادیت کو برقرار رکھنے پر اصرار کرتا رہا ہے۔
اسلام کے پیروؤں نے پچھلے ڈیڑھ ہزار برسوں میں متمدن دنیا کے بڑے حصے پر حکمرانی بھی کی ہے۔ آج ہمیں جو ترقی نظر آتی ہے اسکی بنیادیںمسلمان دانشوروں ہی نے تیار کی تھیں۔ان ڈیڑھ ہزار برسوں میں سیکڑوں نشیب و فراز بھی آئے ہیں اور ایسے سنگین لمحات بھی گزر گئےجب یہ محسوس ہوتا تھا کہ اسلام پسپا ہو جائے گا۔مگر تاریخ کے ان جھکولوں میں مسلمان تو بار بار پسپا ہوئے ہیں، اسلام نے کبھی ہزیمت نہیں اٹھائی۔

Tuesday, May 14, 2013

The Role of Muslims in modern India

جدید ہندوستان میں مسلمانوں کا رول


اسلام دنیا کے ان مذاہب میں سے ایک ہے جس کی بنیاد وحئ الہی پر ہے،جو ایک نظام معیشت و معاشرت پیش کرتا ہے جس میں احتساب زندگی کے لئے آخرت کا ایک واضع تصور بھی موجود ہے، جس کی نظریاتی اساس محکم و مستحکم ہے۔ اسلئے وہ دوسرے نظریات سے آنکھ ملانے کی صلاحیت بھی رکھتا ہے۔ اس کے علاوہ اسلام ہی وہ مذہب ہے جس کا اثر دنیا کے تین براعظموں پر پھیلا ہے۔ مختلف اقوام سے اسکا سابقہ رہا ہے اور اس میں ایسی قوت و لچک موجود ہے کہ یہ ہر طرح کے جغرافی ماحول اور سماجی قوانین میں اپنی انفرادیت کو باقی رکھتے ہوئے زندہ رہ سکتا ہے۔
اپنے اثر و نفوذ کے اعتبار سے بعض مفکروں نے اشراکیت کو بھی ایک مذہب ہی مانا ہے، جس نے پورے مشرق کو اپنے گرفت میں لے رکھا ہے۔ لیکن عجیب بات یہ ہے کہ دنیا کے دو بڑے مذاہب جنہیں عددی اعتبار سے اسلام پر فضیلت حاصل ہے، اشتراکیت کے سامنے سپرانداز ہو چکے ہیں۔ روس و مشرقی یورپ قدامت پرست ایسائیت کا علاقہ تھا جو اب اشتراکیت کے زیر نگیں ہیں۔ منگولیا اور چین ٹاؤ مذہب اور بدھ مت کے علاقے بھی اسکی زد میں آ چکے ہیں۔ عیسائیت کی باقی آدھی دنیا سامراج واد یا imperialism
کی سر پرستی کر رہی ہے اور پچھلی تین صدیوں میں اس نے استعماریت    colonialismکے سہارے دنیا کی بڑی آبادی کا استحصال کیا ہے، جس سے دنیا کا اقتصادی توازن بگڑا ہے اور عالم بشریت قدیم و جدید، پس ماندہ و ترقی یافتہ ممالک میں اس طرح تقسیم ہو گیا ہے کہ اس خلیج کا پر کرنا اور دونوں دنیاؤں میں کسی طرح کی مساوات کو قائم کر دینا بظاہر محال نظر آتا ہے۔
جاری۔۔۔


Explanation of the word Hadhrat (continued)

عربی کا حال تو آج بھی یہی ہے کہ آپ کسی بھی شخص سے کہیں گے کما 'قال حضرتکم' (جیسا کہ حضرت نے فرمایا) لیکن لقب تعظیمی نام کے ساتھ یوں لکھیں "السید ذیل سینغ" یا "السیدۃ اندراغاندی" مگر 'حضرۃ' صرف اس صورت مین لکھیں گے جیسے لفافے پر پتا لکھیں 'الی حضرۃ فلان۔۔۔'
قدیم زمانے میں دار الخلافہ کو "حضرت"  اسلئے کہا جاتا تھا کہ وہاں بادشاہ موجود ہوتا تھا۔ چناں چہ قدیم کتابوں میں "حضرت دہلی" بلکہ صرف "حضرت" بھی لکھا ہوا ملے گا۔جیسے امیر خسرو کا شعر ہے:؎
حضرت دہلی کنف دین و داد
جنت عدن است کہ آباد باد
اب رہا اردو میں اسکا استعمال تو ملائکہ، انبیاء،اولیاء اور صلحاےء امت وعلماءکے ساتھ اس لفظ کا استعمال اس پر دلالت کرتا ہے کہ وہ کوئی زمانہ گزشتہ کی ایسی شخصیات نہیں ہیں جو نابود ہو گئیں ہوں۔ ہم انکے زندہ، موجود اور مشہود ہونے کا یقین رکھتے ہیں یا ایسا ہی احترام کرتے ہیں جیسے وہ زندہ ہوں۔
خاندان کے بزرگوں یا استادوں اور بڑے شاعروں کے ساتھ یہ تعظیمی لفظ ازراہ عقیدہ و مبالغہ استعمال ہورہا ہے۔
اگر کوئی لفظ کسی زبان میں رائج ہو جائے تو اس کے رواجی معنوں کا لحاظ کرنا پڑتا ہے۔
مثلا نماز اور روزہ اسلامی عبادت کے نام نہیں ہیں، یہ فارسی لفظ ہیں اور آتش پرستوں سے متعلق ہیں مگر اب انہیں صوم و صلاۃ کے معنوں ہی مین استعمال کیا جاتا ہے۔ اسلئے اردو کے مزاج کی رعایت کرتے ہوئے اسی طرح لکھنا چاہئے کہ پڑھنے والے کو ازخود اندازہ ہو جائے کہ جس شخص کے لئے یہ تعظیمی لقب استعمال ہو رہا ہے اس کی حیثیت کیا ہے۔ اگر کوئی اسکے خلاف کرتا ہے تو ازروئے قواعد لغت ہم اس کی گرفت نہیں کر سکتے مگر اس کے اسلوب کو اردو کے مزاج سے ہم آہنگ نہیں سمجھا جائے گا۔

Monday, May 13, 2013

Explanation of the word "Hadhrat" حضرت

These are excerpts taken from Prof. N.A.Faruqi's article on explaining the word "Hadhrat" from his book, 'Maqaalaat-e-Faruqi'.


لفظ حضرت کا صحیح املا حضرۃ ہے
اس میں تائے قرشت اصلی نہیں ہے، اسلئے گول لکھی جانی چاہئے لیکن اردو میں عام رواج حضرت لکھنے کا ہو گیا ہے۔ حَضَرَتۤ جو فعل ماضی کا صیغہ واحد مؤنث غائب ہے، اس میں تائے فرشت علامت تانیث ہے اور دوسرے حرف ض پر حرکت ہے۔
حضرت عربی لفظ ہے۔ دوسرے حرف پر فتح نہیں ہے، جزم ہے اور یہ مصدر ہے۔ اسکے معنی ہیں حضور، حضوری، اسکا صحیح املا تاے مدورہ (گول تا)سے ہے۔ اس کے کچھ معنی لغوی ہیں اور کچھ رواجی و اصطلاحی۔ اردو میں جو دوسرے معنی ہیں وہ رواجی کہلائیں گے۔ اور یہ اردو کا روزمرہ سمجھا جائےگا۔
تعظیم کے لیے یہ لفظ قدیم عربی زبان میں استعمال نہیں ہوتا۔ عربی کی قدیم کتابوں میں حضرت عمر حضرت علی یا حضرت عثمان لکھا ہوا نہیں ملےگا۔ رضی اللہ عنہ وغیرہ بھی اس طرح التزام کے ساتھ نہیں لکھتے جیسے اردو میں اسے لازم کر لیا گیا لے۔
تعظیم کے لیے حضرت کا استعمال بظاہر ملوکیت کے زمانے کی یادگار ہے۔ اس کا مفہوم ہے "پیشی مبارک" یا جس طرح آج بھی سفیروں کو (انگریزی میں) خطاب کرتے ہوئے "یور ایکسی لینسی" یا بادشاہوں کو "یور مجسٹی" یا صرف "اکسی لینسی" اور """مجسٹی کہا جاتا ہے۔
قدیم آداب گفتگو میں یہ بھی ایک طریقہ تھا کہ صرف حضرت کہ کر ذات والا مراد لی جاتی تھی۔ اس میں دعا بھی شامل ہے۔ جس طرح بادشاہ وقت اپنے لئے ما بدولت و اقبال کہتا تھا یعنی ہم اور دولت اور اقبال ہمیشہ ایک ساتھ پہچانے جاتے ہیں۔ بزرگوں کا ذکر کرتے ہوئے کہتے تھے 'یادش بخیر یا "ذکرہ اللہ با الخیر" (خدا جب بھی انھیں یاد دلائے خیر و سلامتی کے ساتھ یاد آئیں)۔ اسی طرح حضرت میں یہ دعا بھی شامل ہے کہ آپ کی موجودگی کبھی غیاب میں نہ بدلے۔
عربی میں تعظیم کے لئے بہت الفاظ ہیں مثلا آج جن لفظوں کا رواج ہے ان میں سموہ، معالیکم، فضیلۃالشیخ، سیادتکم حضرتکم، وغیرہ۔ ان میں بعض الفاظ حکمرانوں کے لئے مخصوص ہو گئے ہیں مثلا فخامۃ الشیخ کا مفہوم یہ ہوگا کہ مخاطب شاہی خاندان کا آدمی ہے (حالانکہ اس لفظ میں لغوی اعتبار سے ایسا کوئی اشارہ نہیں ہے) سموہ کا مطلب بھی یہی ہوگا کہ بادشاہ یا شہزادہ وغیرہ ہے۔

فضیلۃ الشیخ عموما استادوں اور علما کے لئے اور معالیکم اعلا عہدے داروں کے لئے۔ لیکن سعادتکم، حضرتکم، سیادتکم کسی بھی شخص سے خطاب کرتے ہوئے کہ سکتے ہیں جس کا احترام کرنا مقصود ہے۔ 


continued....

Saturday, May 11, 2013

Message of Islam اسلام کا پیغام

اسلام کا پیغام

اسلام دنیا کے بڑے مذہبوں میں سے ایک ہے۔ اس کی بنیاد کسی فلسفے پر نہیں بلکہ وحی الہی یعنی    (divine guidance) پر ہے۔ انسان کا علم بھی محدود ہے، سمجھ بھی ناقص ہے، اسلئے زندگی، کائنات اور حقیقت اعلی (ultimate truth) کو جاننے کے لئے انسان کا علم کافی نہیں ہو سکتا، اسکے لئے ضروری ہے کہ ہدایت اور رہنمائی خدا کی طرف سے ملے۔       
 یہ ہدایت ہر زمانے میں خدا کے خاص    بندوں کے ذریعے ہر زمانے میں اور ہر قوم کو ملتی رہی ہے ۔ 
قران کہتا ہے لکل ھاد ہر قوم میں ھدایت دینے والا بھیجا گیا ہےقرآن کی اصطلاح میں انکو نبی اور رسول کہا جاتا ہے۔ نبی کا مفہوم ہے ان باتوں کی خبر دینے والا جنہیں ہم دیکھ نہیں رہے ہیں۔ جیسے کوئی شخص ایک بلند ٹیلے پر کھڑا ہو اور ٹیلے کے دونوں طرف ہونے والی باتوں کو دیکھ رہا ہو۔ اس طرف کھڑے لوگوں کو دوسری طرف کی باتیں اپنی آنکھوں دیکھی بتا رہا ہو۔
رسول کے معنی ہیں قاصد ، ایلچی ، نمائندہ یا ہرکارہ۔ اللہ کی طرف سے اسکے احکام بندوں تک پہنچانے والے کو رسول کہتے ہیں۔ اللہ کے ان خاص بندوں میں سے صرف 20-25 نبیوں اور رسولوں کےنام قرآن میں ملتے ہیں۔ مگر خود قرآن  کہتا ہے کہ کچھ  رسولوں کا ہم نے  ذکرکیا ہے اور کچھ کا  ذکر نہیں کیا۔ حدیث کی روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک لاکھ چوبیس ہزار (124000 ) پیغمبر آئے ہیں۔ ہر قوم اور ہر ملک میں آئے ہیں۔ ہندوستان بھی ایک بہت بڑا ملک ہے۔ یہاں کی تہذیب بھی ہزاروں سال پرانی ہے۔ یہاں بھی یقینا بہت سے نبی آئے ہونگے۔ قرآن میں ایک پیغمبر کا نام ذو الکفل ملتا ہے۔ اور انکے بارے میں کہیں دوسری جگہ کچھ تفصیل معلوم نہیں ہوتی۔ بعض مسلمان علما  کا یہ خیال ہے کہ کفل دراصل کپل کی عربی شکل ہے۔ ذوالکفل کے معنی ہیں کپل والا ۔ مہاتما گوتم بدھ کپل وستو میں پیدا ہوئے تھے۔  یہ انکی طرف اشارہ ہے۔ کچھ عالموں نے شری کرشن جی مہاراج کو بھی نبی مانا ہے۔ لیکن یہ ذہن میں رکھنا ضروری ہے کہ ہزاروں برس کے الٹ پھیر میں قصے کچھ کے کچھ ہو جاتے ہیں۔ انسان کا حافظہ بہت سی باتون کو بھول جاتا ہے۔ بہت سی باتیں اپنی طرف سے بڑھا دیتا ہے۔ کچھ باتوں کو اسکی ناقص عقل سمجھ نہیں پاتی۔ اسلئے قصوں ، کہانیوں میں اور دیومالاؤں میں ان بزرگوں کے بارے میں جو کچھ کہا جاتا ہے اسے تاریخی سچائی سمجھنا غلط ہوگا۔
اسلام کے معنی ہیں  امن ،سلامتی ، شانتی۔ سماج کا فساد سے، گڑبڑ اور بے ایمانی سے پاک صاف رہنا اسلام کا مقصد ہے۔ قرآن کریم نے بعض قوموں پر یہی الزام لگایاہے کہ  وہ اصلاح سدھار اور ترقی کے نام پر بگاڑ اور تباہی پیدا کر رہے ہیں۔ دور کیوں جائیں ہمارے زمانے میں دنیا بھر میں جو لاکھوں مہلک ہتھیار پھیل گئے ہیں یہ سب ترقی کے نام پر ہی تو ہوا ہے۔ اسلام کی ضد کفر اور شرک ہیں۔ ہمارے بہت سے بھائیوں کو یہ غلط فہمی ہےکہ کافر یا مشرک کہنا گالی دینے کے برابر ہے۔ حالانکہ ان دونوں لفظوں میں گالی دینے یا حقیر سمجھنے کا کوئی اشارہ نہیں ہے۔ شرک کے معنی ہیں شریک بنانا ، جو کوئی یہ عقیدہ رکھے کہ خدا کے ساتھ کوئی اور بھی کائنات کا چلانے والا،مارنے یا جلانے والا ہے اسے مشرک کہا جائےگا۔ جس کے لئے انگریزی میں لفظ ہے۔کافر کے معنی ہیں انکار کرنے والا، چھپانے والا۔ پرانی آسمانی کتابوں میں پیغمبر اسلام حضرت محمد ﷺ کے آنے کی بشارتیں لکھی ہوئی تھیں۔جب آپ ﷺ نے اپنی نبوت کا اعلان کیا تو کچھ گروہوں نے آدی گرنتھوں  کی ان عبارتوں کو چھپانا یا بدلنا شروع کر دیا۔ اور حضرت محمد ﷺکو  سچانبی ماننے سے انکار کر دیا۔   انکے لئے عربی زبان میں لفظ کافر آتا ہے۔قرآن میں یہ لفظ صرف عرب قبیلوں کے context میں استعمال ہوا ہے۔ان سےجہاد اور قتال کا حکم ہے۔قتال کے معنی قتل کرنا نہیں ہے بلکہ جنگ یا وار کے لئے آتا ہے۔اس میں بھی یہ کہا گیا ہے اگر وہ تمہیں  (یعنی عرب کے پہلے دور کے مسلمانوں کو ) تمھارے گھروں سے نکال دیں یا فتنہ پیدا کریں تو ان سے جنگ کرو۔اس جنگ کا حکم ایسا ہی ہے جیسے سری کرشن جی مہاراج نے بھگوت گیتا میں یدھ اور کرما کا فلسفہ بتایا ہے۔ جنگی تاریخ کے ماہریں جانتے ہیں کہ اکثر حالات میں امن قائم کرنے کے لئے جنگ کرنا ضروری ہو جاتا ہے جیسے ایک سرجن بدن کا فاسد مادہ دور کرنے کے لئے آپریشن کرتا ہے۔
اسلام خود کو کوئی نیا مذہب نہیں بتاتا۔وہ دین فطرت ہے۔اللہ نے انسانوں سماج میں پہلے دن سے نبی ،رسول ، ہدایت دینے والے اور سیدھا راستہ دکھانے والےبھیجے ہیں،جو پیغمبر بعد میں آئے ہیں انھوں نے اگلے پیغمبروں کی تصدیق کی ہے۔ بعض نبیؤں کو صحائف آسمانی یعنی  divine scripturesدئے گئے ہیں،ان میں سے بہت سے ضائع ہو گئے۔ بعض کی اصل نہیں ملتی ترجمے ملتے ہیں۔بعض کو بعد میں revise کیا گیا ہے۔ قرآن کا دعوی یہ ہے کہ تم ایسی ہی ایک سورۃ یعنی کم از کم تین فقرے لکھ کر دکھا دو، اور اپنے گواہوں کو بلا لوکہ وہی یہ فیصلہ کر دیں  تمھاری لکھی ہوئی عبارت قرآن کا مقابلہ کر رہی ہے یا نہیں۔  یہ دعوی اس عرب سماج میں کیا گیا جس کی فصاحت، بلاغت ، زبان و بیان پر قدرت کو آج بھی تسلیم کیا جاتا ہے، عرب اپنے سوا ساری دنیا  کی ساری قوموں کو عجم یعنی گونگا یا بے زبان سمجھتے ہیں۔مگر قرآن کے اس چیلنج کو کوئی قبول نہ کر سکا کہ اس جیسے تین چار فقرے لکھ دیتا۔پھر اللہ  نے قرآن میں یہ بھی اعلان کیا کہ اسے ہم نے اتارا ہے اور ہم خود ہی اسکی حفاظت کرینگے۔چنانچہ ہر زمانے میں مسلم سماج میں ہزاروں لاکھوں ایسے انسان رہے ہیں جنہیں  شروع سے آخر تک پورا قرآن زبانی یاد ہوتا ہے اور ہر سال رمضان کے مہینے میں پورا قرآن سنایا جاتا ہے
ایک بات اور بھی حیرت میں ڈالنے والی ہے، جو لوگ عربی زبان جانتے ہوں وہ اس کا اندازہ کر سکتے ہیں کہ حضرت محمد ﷺ کی مبارک زبان سے نکلے ہوئے ایک ایک لفظ کو محفوظ رکھا گیا ہے اور ان سے سیکڑوں کتابیں بن گئی ہیں ۔آپ کے ارشادات کو 'حدیث' کہا جاتا ہے اور حدیث کی روایت کو ایک نسل سے دوسری  نسل کی طرف ساڑھے پانچ لاکھ راویوں یعنی  transmitters نے پہنچایا ہے – اور ان ساڑھے پانچ لاکھ راویوں کے حالات زندگی یعنی biographical noticesبھی جمع کئے گئے ہیں تاکہ یہ اندازہ  ہو سکے کہ ان میں کون سچا تھا اور کون جھوٹا تھا۔ مگر  جتنی حدیثیں  روایت ہوئی ہیں  انکا style اور diction قرآن سے بلکل مختلف ہے۔اگر قرآن حضرت محمد ﷺ کا لکھا ہوا ہوتا تو اس کے اور حدیث کے style کہیں کہیں تو یکسانی ضرور پائی جاتی ، مگر ایسا نہیں ہے۔قرآن 23 برسوں میں نازل ہوا اور کبھی لمبے عرصے تک کوئی وہی نہیں آتی تھی، وحی نہ آنے کا طویل تریں وقفہ پونے تین برس بتایا گیا ہے۔ اس مدت میں آپ نے کبھی وحی آنے کا دعوہ نہیں کیا۔بلکہ نہایت بے چینی سے اسکا انتظار کرتے رہے۔
قرآن نے صاف لفظوں میں اعلان کیا ہے کہ "اے محمد (ﷺ) لوگوں سے کہہ دیجئے کہ میں تمھارے جیسا ہی ایک انسان ہوں ، بس اتنا فرق ہے کہ میرے پاس اللہ کا پیغام (وحی) آتا ہے"۔ آپ نے کسی طرح کی  کا دعوہ نہیں کیا۔ عام انسانوں کی طرح رہے۔مخالف ہنسی بھی اڑاتے تھے کہ یہ کیسے پیغمبر ہیں جو بازار میں چلتے پھرتے  ہیں۔ آپ ﷺ نے دعا مانگی تو یہ کہ "اے اللہ ! مجھے مسکین   بنا کر  زندہ  رکھیو ، مسکینی کی حالت میں ہی موت  دیجیواور قیامت کے دن مجھے مسکینوں اور فقیروں کے ساتھ ہی اٹھائیو۔"
اسلام میں داخل ہونے کے لئے کوئی خاص رسم نہیں ہے۔ بس زبان سے کلمہ پڑھنا ہوتا ہے اور دل سے اسکو ماننا ہوتا ہے۔ کلمہ یہ ہے کہ اشہد ان لا الہ الا اللہ و اشہد ان محمد ا عبدہ و رسولہ  یعنی میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں ہےاور یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ محمد ﷺ اللہ کے بندے اور رسول ہیں۔
یہ تو بنیادی کلمہ ہے، ایک دوسرا کلمہ بھی ہے جسے ایمان مفصل کہا  جاتا ہے۔ وہ یوں ہے کہ " میں ایمان لاتا ہوں اللہ پر اور اسکے فرشتوں پر ، اور اسکی کتابوں پر ،اور اسکے رسولوں پر ، اور اس پر ایمان لاتا ہوں کہ نیکی اور بدی ، یعنی اچھی اور بری ہر بات پر قدرت اللہ ہی کو ہے، اور مرنے کے بعد حساب کتاب کے لئے اٹھائے جانےپر ایمان لاتا ہوں۔"
اس  کلمے کا مطلب یہ ہے کہ ہمارا دین انجیل اور تورات پر بھی ہےاور حضرت عیسی  مسیح  علیہ السلام اور حضرت موسی  علیہ السلام کی نبوت پر بھی ہے۔ اگر کوئی حضرت عیسی علیہ السلام یا حضرت موسی علیہ السلام کو نہ مانے تو وہ مسلمان نہیں رہیگا۔ اگرچہ عیسائ اور یہودی حضرت محمد ﷺ کو نہ مان کر عیسائ اور یہودی رہتے ہیں۔
اللہ کے فرشتوں اور اللہ کی بھیجی ہوئ کتابوں کا ذکر اس طرح کیا گیا ہےکہ ہمیں ان سب مذہبی کتابوں کا احترام کرنا چاہئے۔ جنہیں کوئی قوم اپنی مقدس کتاب کہتی ہے۔
اسلام کا کہنا ہے کہ انسان کا فطری عقیدہ 'توحید' ہے۔
وقت  گزرنے کے ساتھ اسمیں تبدیلی ہوتی رہی ہے جیسے زردشتیوں نے دنیا میں نیکی اور بدی کی جنگ  دیکھی تو یہ سمجھ لیا کہ اچھائی کا خدا یزداں ہے اور برائی یعنی شر کا خدا اہرمن ہے دونوں میں ازل سے جنگ ہو رہی ہےکبھی یہ غالب آجاتا کبھی وہ۔ کسی فرقے نے کائنات کے مظاہر یعنی   phenomenonکو اصل سمجھ لیا اور نیچر  کی پوجا کرنے لگے۔  کسی نے یہ غور کیا کہ مادہ بھی لا زوال ہے یہ فنا نہیں ہوتا ،  روپ بدل لیتا ہے، اسی طرح روح بھی ازلی ہے و ابدی ہے وہ ایک بدن سے دوسرے بدن میں سفر کرتی رہتی ہے، کسی نے سوچا کہ انسان جو دکھ درد میں مبتلا ہوتا ہے اسکا سبب خواہش نفس ہے، خواہشوں کو ختم کر دو، نہ رہے گا بانس نہ بجے گی بانسری۔
اسلام یہ تعلیم دیتا ہے کہ اللہ ایک ہے۔ "اللہ" کے لفظ پر بھی غور کر لیجئے ۔ عربی زبان میں God   کو الہ کہتے ہیں اور کسیcommon noun  کو  proper nounبنانے کے لئےالف لام  کی طرح آتا ہے۔ الہ پر الف لام آیاہے تو وہ  اللہ ہو گیا۔  God کے ساتھthe تو نہیں آتا مگر یہاں آپ  the Godسمجھ لیجئے۔
یعنی وہی ایک پوجا کا پاتر ہے، انادی ہے، اننت ہے، نرگن ہے، نراکار ہے، نہ وہ کسی سے پیدا ہوا ، نہ اس سے کوئی پیدا ہوا، وہ کسی جگہ میں بھی بند نہیں ہے، ورنہ محدود ہو جائےگا، اسکی کوئی سمت یا بھی نہیں ہے، وہ ہر جگہ ہے، ہر چیز کا خالق ہے ، پالنہار ہے، سب کو دیکھتا ہے، سب کو سنتا ہے، مگر اسکا دیکھنا آنکھ کے وسیلے کا محتاج نہیں ، اسکے سننے کو کانوں کا واسطہ درکار نہیں، وہ نہ کھاتا ہے نہ پیتا ہے، نہ سوتا ہے نہ تھکتا ہے۔ اسکے کوئی شکل نہیں کوئی صورت نہیں کوئی مورت نہیں۔ قرآن کہتا ہے کہ اللہ زمین اور آسمانوں کا نور ہے۔
صوفیہ جب مراقبہ  کرتے ہیں تو ایک منزل ذات بحت یعنیpure and ultimate being  کا دھیان کرنے کی آتی ہے ، وہ کہتے ہیں کہ اس مرحلے میں کچھ نہیں سوجھتا ، سیاہی اور تاریکی نظر آتی ہے۔ جدید سائنس بھی یہ کہتی ہے کہ نور یا  جب بہت زیادہ ہو جائے تو سیاہ ہو جاتی ہے۔
اللہ غنی ہے ہم سب فقیر ہیں۔ غنی اسکو کہینگے جو ان چیزوں کی احتیاج بھی نہ رکھتا ہوجو اسکے پاس ہیں، فقیر وہ ہے کہ جو وہ نہیں رکھتا اسکا محتاج ہے۔
زندگی اور موت کا دینے والا بھی اللہ ہے، وہی ہے جو ایک حقیر سے بیج کو تناور درخت بنا دیتا ہے۔ وہی ہے جس نے زمیں کی  مٹی میں اتنی طاقت بھر دی ہے کہ لاکھوں برس سے وہ پیداوار دے رہی ہے بلکہ اب تو پہلے سے بھی زیادہ دے رہی ہے۔
اللہ ہی ہے جس نے اربوں کھربوں ستاروں کو ایک دوسرے سے ایسا باندھ دیا ہے اور اتنے فاصلے پر رکھا ہے کہ وہ آپس میں نہ ٹکرائیں۔
وہی ہے جو بادل بھیجتا ہے پانی برساتا ہے، ہوا چلاتا ہے، اسی نے یہ کائنات اپنے ایک اشارے سے پیدا کی ہے، اور اسی کے حکم سے ایک دن یہ فنا ہو جائےگی۔
انسان کو اللہ نے اپنا خلیفہ بنا کر بھیجا ہے، اسے کچھ اختیارات دئے ہیں کچھ باتوں میں مجبور رکھا ہے، تقدیر ضرور لکھی ہے مگر تدبیر کو بھی اثر سے خالی نہیں چھوڑا ہے۔
انسان کی عظمت کا جیسا تصور اسلام میں ہے شاید ہی کہیں اور مل سکے۔ اللہ کہتا ہے کہ ہم نے انسان کو بہتریں نقشے پر پیدا کیا ہے، دوسری جگہ کہتا ہے کہ ہم نے انسان کے پتلے میں اپنی روح پھونکی ہے، فرشتوں کو حکم دیا کہ انسان کے آگے سر جھکائیں، جس نے یہ حکم نہ مانا اسے شیطان قرار دے کر نکال دیا گیا۔
لیکن انسان کی اس عظمت کے ساتھ ایک اور آزمائش بھی ہے۔ اسلام آخرت پر زور دیتا ہے، یعنی اس زندگی کے بعد ایک اور زندگی بھی ہے۔ سب انسان دوبارہ زندہ کئے جائنگے اور انہیں اس دنیا کی زندگی کے ایک ایک چھن کا حساب دینا ہوگا، جو کچھ انہوں نے یہاں کیا تھا وہ سب  replay کرکے دکھایا جائےگا، خود انسان کے ہاتھ پاؤں وغیرہ گواہی دینگے۔ جس نے ذرہ بھر نیکی کی ہوگی اسکا بدلہ پائےگا، جس نے ذرہ بھر بدی یا شرارت کی ہوگی اسکی سزا پائےگا۔
یہ امتحان فرشتوں کا نہیں ہوگا وہ لذت گناہ سے واقف ہی نہیں، حیوانوں کا بھی نہیں ہوگا انہیں عقل ہی نہیں دی گئی، انسانوں کا حساب کتاب ہوگا اسلئے کہ انسان کو کسی قدر اختیار بھی دیا ہے ، عقل بھی، وہ نیکی اور بدی کا علم بھی رکھتا ہے،جسمانی خواہشات بھی۔ اسے  اس زندگی میں توازن کے ساتھ ایسے گزرنا ہوتا ہے جیسے نٹ رسی پر چلتا ہے۔
اسلام کا ایک اور وصف اخوت اور مساوات کا نذریہ ہے۔ اسلام میں کوئی اپنی قومیت ، یا نسب ، یا علم ، یا دولت یا عہدے کے اعتبار سے بڑا چھوٹا نہیں ہے۔ جو زیادہ پرہیزگار ہے اسے دوسروں پر فضیلت حاصل ہے اور کسی کو نہیں۔ بادشاہ وقت بھی مسجد میں جاکر اپنے دربان کے ساتھ صف میں کھڑا ہوکر نماز پڑھے گا۔ کسی انسان کا جھوٹا نا پاک نہیں، کوئی پیشہ حقیر نہیں ،ہمافے سال بھر کے خرچ سے بچے ہوئے مال پر ڈھائی فی صد زکاۃ ہے جسے فقیروں اور مسکینوں کا 'حق 'بتایا گیا ہے۔  
عورتوں کو جتنے حقوق اسلام نے دئے ہیں اتنے اس زمانے میں کسی مذھب  اور کسی تہذیب میں عورت کو حاصل نہیں تھے۔ طلاق کو انتہائی دشوار بنانے کے لئے انتہائی آسان کیا گیا ہے۔اسلامی شریعت کے جو قانون قرآن کی روشنی میں بنے ہیں ان میں کوئی تبدیلی کرنے کا کسی کو بھی اختیار نہیں  البتہ دوسرے قوانین میں حالات اور زمانے کی رعایت سے اور علما کے اتفاق  سے ترمیم و تبدیل کی جا سکتی ہے۔
اسلام کا خلاصہ یہ ہے کہ انسانوں کےمعاملات آپس میں اچھے ہوں،  اور  ہر انسان کا تعلق اپنے خالق اور پالنہار سے مضبوط ہو  اور اخلاص کے آدھار پر ہو۔
الحمدللہ ختم شد۔

About The Author

NAFaruqi.Jpg

Professor Nisar Ahmed Faruqi has authored many books and articles. This blog is created for the purpose of showcasing some of his work.