Thursday, May 23, 2013

The Role of Muslims in modern India- Last Part


ہندوستان کی اکثریت نسل پرست ہے، اکال الامم ہے، اس کی تہزیب میں جارحیت ہے،وہ احیاء پرستی کے نام پر تاریخ کے دھارے کو موڑنے کی کوشش کر رہی ہے، مگر مسلمانوں کو بھی یہ سمجھ لینا چاہئےکہ وہ اسے صرف اپنے اعلی تصور اقدار اور کردار سے مفتوح بنا سکتے ہیں۔ اس میں سب سے اہم،دیر پا اور دور رس عمل تصوف کا ہوگا۔ ہماری خانقاہیں بہت بڑی تجربہ گاہیں اور ہمارے افکار کی نفاست اور نظافت کا دل موہ لینے والا نمونہ بن سکتی ہیں، بشرتہ کہ ہم انہیں اپنی قومی شیرازہ بندی اور ہمسایوں سے تعلقات بہتر کرنے کے لئے استعمال کرنا چاہیں۔ مگر افسوس ہے کہ خانقاہیں تو ختم ہو گئیں، درگاہیں رہ گئی ہیں، ان کی اصلاح کرنا آسان نہیں، کیونکہ اس سے مہتوں کی روزی وابستہ ہے۔ اس المیہ کا ایک رخ یہ ہے کہ خانقاہوں سے علم اٹھ گیا ہے اور علماے تصوف نا پید ہو گئے۔ ورنہ ابتدائی صدیوں میں اسلام دی سب سے زیادہ خدمت صوفیہ ہی نے کی ہے اور اسے یہاں مقبول بنایا ہے۔ یہ صوفیہ عالم دین بھی ہوتے تھے،اسلئے ان کی تربیت میں گہری تاثیر ہوتی تھی۔
ہندوستانی سماج میں رہ کر ہمیں ایک نہایت اہم نکتے کو بھی سمجھنا ہوگا جسے ہمارے صوفیہ نے خوب سمجھا تھا، لیکن علماء نے اس کی کبھی حوصلہ افزائی نہیں کی، اور وہ علاقائی زبانوں کی قوت و اہمیت اور اثر ونفوذ کے سمجھنے کا مسئلہ ہے۔ شیخ نجم الدین کبری نے مرصاد العباد کی وجہ تالیف میں لکھا ہے کہ "افعل ولا تفعل کہنے سے زیادہ مؤثر یہ ہے کہ کن یا مکن کہا جائے"۔
عربی بلا شبہ قرآن کی زبان ہے۔ اسلام کا بنیادی سرمایہ بھی اسی زبان میں ہے اور اس نے ملی وحدت کو باقی رکھنے میں بھی نہایت اہم رول ادا کیا ہے، لیکن مسلمان ہونے کے لئے عربی جاننا لازمی نہیں ہے۔ پچھلی صدیوں میں ہمارے علماء نے اگر علاقائی زبانوں کو سمجھا ہوتا تو آج ہندوستان کا نقشہ ہی دوسرا ہوتا۔ یہاں بعض ایسے مذاہب بھی پیدا ہوئے جن پر اسلامی تعلیمات کا گہرا اثر ہے، مگر وہ اسلامی دھارے سے اس لئے کٹ گئے کہ ہم انہیں صرف عربی پڑھانا چاہتے تھے۔اگر ہم نے اب بھی علاقائی زبانوں سے بے گانگی کا رویہ باقی رکھا تو اس کا نقصان بھی خود ہمیں ہی پہنچے گا۔
مسلمانوں نے انگریزی تعلیم کو قبول کرنے میں بہت دیر کر دی تھی۔ ورناکیولر مدارس کا جال جو میکالے رپورٹ کے بعد پھیلایا گیا تھا، اس میں مسلمان بچیوں کی تعداد صفر تھی اور مسلمان بچے بھی بہت کم شریک ہوئے تھے۔ مگر جب ورناکیولر مدارس سے پڑھے ہوئے لوگوں کو روزگار ملنے لگے تو مسلمانوں کا کسی قدر التفات ادھر ہوا۔ اعلی تعلیم کے سارے شمالی ہند میں دو ہی کالج تھے۔ غیر مسلموں کے تعلیمی ادارون کی تعداد بہت ہو چکی تھی اور جب وہ جامعاتی تعلیم کی حدوں میں آ چکے تھے، تب ہم نے مڈل کلاس تک پڑھنا سیکھا تھا۔ نئے قومی تعلیمی منصوبوں کو اپنانے میں بھی اگر ایسی ہی بے التفاتی کا مظاہرہ کیا گیا تو اس سے ہندوستانی مسلمانوں کی پسماندگی نا قابل اصلاح حد تک پہنچ جائے گی۔ ہمیں اپنے تعلیمی ادارون کی طرف پورے خلوص و انہماک سے توجہ کرنی ہوگی اور یہ اصلاح ابھی ثانوی کے مرحلے تک ہونی بہت ضروری ہے۔
خلاصہء کالم یہ کہ مسلمانوں کو اپنی تہزیبی انفرادیت اور اپنی شناخت باقی رکھتے ہوئے پورے ہندوستانی سماج کا ایک مفید اور فعال عنصر بننا ہے اور اپنے گرد و پیش پر پورے شعور کے ساتھ غور کرنا ہے، ورنہ سنت الہیہ نہ کسی لے لئے بدلی ہے، نہ وہ مسلمانوں کے لیے بدلنے والی ہے۔
یہ مقالہ مرکزی اسلامی حیدرآباد کے عالمی سمینار (یکم،2،3 اگست 1986ء) کے موقعہ پر پڑھا گیا۔  

No comments:

Post a Comment