Wednesday, May 22, 2013

The Role of Muslims in modern India-4


مسلمانوں کے اندرونی اجتماعی نظام میں زکاۃ کا ادارہ ایک ایسا انسٹیٹیوشن ہے جس کی مثال کسی دؤسرے مذہب میں نہیں ملتی۔ یہ ملت کی معاشی مساوات کا ضامن بھی ہے اور کمزور افراد کو سماجی تحفظ بھی فراہم کرتا ہے، مگر افسوس ہے کہ ہم نے اجتہاد کا دروازہ خوف سے اور زکاۃ کے مرکزی نظام کا دروازہ لالچ کی وجہ سے بند رکھا ہے۔
اب اس مرکزی نظام کا احیاء تو آسان نہیں ہے، لیکن کاش ہم نے اپنے اوقاف ہی کو نظم و ضبط اور امانت و دیانت کے ساتھ چلا لیا ہوتا۔ صرف دہلی شہر کے بارے میں اندازہ ہے کہ کم سے کم تین سو کروڑ کی مالیت کے مسلم اوقاف موجود ہیں جن کی ماہانہ آمدنی تین لاکھ بھی نہیں ہے۔ اسی سے پورے ہندوستان کے اوقاف کا حال سمجھ لیجیے۔
فطرت کے اصول یہ ہے کہ جو مخلوق کمزور ہو، خطرات میں گھری ہوئ ہو، اس میں دفاعی قوت پیدا ہوجاتی ہے۔ وہ زیادہ نظم اور اتحاد کے ساتھ زندگی گزارتی ہے،انسانی معاشرہ میں بھی یہی اصول کا فرما ہے، صرف یہودیوں کی مثال کافی ہے، جو عددی حیثیت سے بہت قلیل ہیں مگر ان کی اس کمزوری نے ساری مخفی صلاحیتوں کو بیدار کر دیا ہے، اور سچ پوچھئے تو آج کی دنیا پر یہودی ذہن کی حکمرانی ہے۔ اس صدی کا سب سے بڑا اور چھا جانے والا معاشی فلسفہ کمیونزم ایک یہودی ذہن کی پیداوار ہے، اسی طرح سائنس اور ٹیکنالوجی میں سب سے بڑا نام آین اسٹائن بھی ایک یہودی ہی ہے۔ امریکہ کی معیشت پر یہودی گرفت اتنی مضبوط ہے کہ صدارتی انتخاب کا امیدوار بھی الکشن لڑنے سے پہلے یہودیوں کو دم دلاسے دیتا ہے، اور امریکی کانگریز یہودیوں کے مفادات کے خلاف کوئ فیصلہ نہیں کر سکتی۔
لیکن مجھے سخت حیرت ہے کہ ہندوستانی مسلمان اس فطری اصول کے خلاف کیوں جا رہا ہے؟  ہماری صفوں میں اتحاد کیوں نہیں ہے؟
ہماری ملی اور اجتماعی غیرت بیدار کیوں نہیں ہوتی؟ ہم کیوں اپنے ہی خول میں سمٹے جا رہے ہیں؟ اس کے کچھ اسباب سمجھ میں آتے تو ہیں مگر۔۔۔
افسوس بے شُمار سخن ہائے گفتنی
خوفِ فسادِ خلق سے ناگفتہ رہ گئے

ہم اپنے گرد و پیش سے مفاہمت تو کیا کرتے، اپنی مرضی کے خلاف کچھ سننے کے رودار بھی نہیں رہے۔ ہر جماعت نے امت کی فلاح کا "واحد نسخہ" سوچ رکھا ہے اور اس کے سوا کسی دوسرے نسخے کا تذکرہ سننا بھی اسے گوارا نہیں اور یہ اس کی علامت ہے کہ ہمارے ذہنوں کی کھڑکیاں بند ہو چکی ہیں۔ یہ طرز فکر مطلق العان شہنساہیت کے زمانے میں تو کارآمد تھا لیکن اس جمہوری دور میں اس کے منافع بھی اپنی معنویت کھو چکے ہیں۔ جس نے عالم کی بنیاد حقیقت یعنی " تغیر" کو تسلیم نہیں کیا، وہ زمانے کے ساتھ چل سکتا ہے، نہ مسائل کا 
حل پا سکتا ہے۔ یہی نکتہ اس ارشاد عالی میں بھی پوشیدہ ہے:

ان اللہ لا یغیر ما قوم حتی یغیروا ما بانفسہم۔   الرعد 11  
بے شک الله کسی قوم کی حالت نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنی حالت کو نہ بدلے

نئے ہندوستان کے سماج میں باعزت زندگی گزارنے کے لئے ہمیں اپنے انداز میں کچھ تبدیلی تو ضرور کرنا ہوگی ورنہ جو شے لچکتی نہیں وہ ٹوٹ جاتی ہے۔ یہی قانون فطرت ہے:

و لن تجد لسنتہ اللہ تبدیلا ۔     فاطر3 4
 اورتو الله کے قانوں میں کوئی تغیر نہیں پائے گا

No comments:

Post a Comment