اسلام کا پیغام
اسلام دنیا کے بڑے مذہبوں میں سے ایک ہے۔ اس کی بنیاد کسی فلسفے پر نہیں بلکہ
وحی الہی یعنی (divine guidance) پر ہے۔ انسان کا علم بھی محدود ہے، سمجھ بھی ناقص ہے، اسلئے
زندگی، کائنات اور حقیقت اعلی (ultimate truth) کو جاننے کے لئے انسان کا علم کافی نہیں ہو سکتا،
اسکے لئے ضروری ہے کہ ہدایت اور رہنمائی خدا کی طرف سے ملے۔
یہ ہدایت ہر زمانے میں خدا کے خاص بندوں کے ذریعے ہر زمانے میں اور ہر قوم کو ملتی رہی ہے ۔
یہ ہدایت ہر زمانے میں خدا کے خاص بندوں کے ذریعے ہر زمانے میں اور ہر قوم کو ملتی رہی ہے ۔
قران کہتا ہے لکل ھاد ہر قوم میں ھدایت دینے والا بھیجا گیا ہےقرآن کی
اصطلاح میں انکو نبی اور رسول کہا جاتا ہے۔ نبی کا مفہوم ہے ان باتوں کی خبر دینے
والا جنہیں ہم دیکھ نہیں رہے ہیں۔ جیسے کوئی شخص ایک بلند ٹیلے پر کھڑا ہو اور
ٹیلے کے دونوں طرف ہونے والی باتوں کو دیکھ رہا ہو۔ اس طرف کھڑے لوگوں کو دوسری
طرف کی باتیں اپنی آنکھوں دیکھی بتا رہا ہو۔
رسول کے معنی ہیں قاصد ، ایلچی ، نمائندہ یا ہرکارہ۔ اللہ کی طرف سے اسکے
احکام بندوں تک پہنچانے والے کو رسول کہتے ہیں۔ اللہ کے ان خاص بندوں میں سے صرف
20-25 نبیوں اور رسولوں کےنام قرآن میں ملتے ہیں۔ مگر خود قرآن کہتا ہے کہ کچھ رسولوں کا ہم نے ذکرکیا ہے اور کچھ کا ذکر نہیں کیا۔ حدیث کی روایتوں سے معلوم ہوتا
ہے کہ ایک لاکھ چوبیس ہزار (124000 ) پیغمبر آئے ہیں۔ ہر قوم اور ہر ملک میں آئے
ہیں۔ ہندوستان بھی ایک بہت بڑا ملک ہے۔ یہاں کی تہذیب بھی ہزاروں سال پرانی ہے۔
یہاں بھی یقینا بہت سے نبی آئے ہونگے۔ قرآن میں ایک پیغمبر کا نام ذو الکفل
ملتا ہے۔ اور انکے بارے میں کہیں دوسری جگہ کچھ تفصیل معلوم نہیں ہوتی۔ بعض مسلمان
علما کا یہ خیال ہے کہ کفل دراصل کپل کی
عربی شکل ہے۔ ذوالکفل کے معنی ہیں کپل والا ۔ مہاتما گوتم بدھ کپل وستو میں پیدا
ہوئے تھے۔ یہ انکی طرف اشارہ ہے۔ کچھ
عالموں نے شری کرشن جی مہاراج کو بھی نبی مانا ہے۔ لیکن یہ ذہن میں رکھنا ضروری ہے
کہ ہزاروں برس کے الٹ پھیر میں قصے کچھ کے کچھ ہو جاتے ہیں۔ انسان کا حافظہ بہت سی
باتون کو بھول جاتا ہے۔ بہت سی باتیں اپنی طرف سے بڑھا دیتا ہے۔ کچھ باتوں کو اسکی
ناقص عقل سمجھ نہیں پاتی۔ اسلئے قصوں ، کہانیوں میں اور دیومالاؤں میں ان بزرگوں
کے بارے میں جو کچھ کہا جاتا ہے اسے تاریخی سچائی سمجھنا غلط ہوگا۔
اسلام کے معنی ہیں امن ،سلامتی ،
شانتی۔ سماج کا فساد سے، گڑبڑ اور بے ایمانی سے پاک صاف رہنا اسلام کا مقصد ہے۔
قرآن کریم نے بعض قوموں پر یہی الزام لگایاہے کہ
وہ اصلاح سدھار اور ترقی کے نام پر بگاڑ اور تباہی پیدا کر رہے ہیں۔ دور
کیوں جائیں ہمارے زمانے میں دنیا بھر میں جو لاکھوں مہلک ہتھیار پھیل گئے ہیں یہ
سب ترقی کے نام پر ہی تو ہوا ہے۔ اسلام کی ضد کفر اور شرک ہیں۔ ہمارے بہت سے
بھائیوں کو یہ غلط فہمی ہےکہ کافر یا مشرک کہنا گالی دینے کے برابر ہے۔ حالانکہ ان
دونوں لفظوں میں گالی دینے یا حقیر سمجھنے کا کوئی اشارہ نہیں ہے۔ شرک کے معنی ہیں
شریک بنانا ، جو کوئی یہ عقیدہ رکھے کہ خدا کے ساتھ کوئی اور بھی کائنات کا چلانے
والا،مارنے یا جلانے والا ہے اسے مشرک کہا جائےگا۔ جس کے لئے انگریزی میں لفظ
ہے۔کافر کے معنی ہیں انکار کرنے والا، چھپانے والا۔ پرانی آسمانی کتابوں میں
پیغمبر اسلام حضرت محمد ﷺ کے آنے کی بشارتیں لکھی ہوئی تھیں۔جب آپ ﷺ نے اپنی نبوت
کا اعلان کیا تو کچھ گروہوں نے آدی گرنتھوں
کی ان عبارتوں کو چھپانا یا بدلنا شروع کر دیا۔ اور حضرت محمد ﷺکو سچانبی ماننے سے انکار کر دیا۔ انکے
لئے عربی زبان میں لفظ کافر آتا ہے۔قرآن میں یہ لفظ صرف عرب قبیلوں کے context میں استعمال ہوا ہے۔ان سےجہاد اور قتال کا حکم ہے۔قتال کے معنی قتل کرنا نہیں ہے
بلکہ جنگ یا وار کے لئے آتا ہے۔اس میں بھی یہ کہا گیا ہے اگر وہ تمہیں (یعنی عرب کے پہلے دور کے مسلمانوں کو ) تمھارے
گھروں سے نکال دیں یا فتنہ پیدا کریں تو ان سے جنگ کرو۔اس جنگ کا حکم ایسا ہی ہے
جیسے سری کرشن جی مہاراج نے بھگوت گیتا میں یدھ اور کرما کا فلسفہ بتایا ہے۔ جنگی
تاریخ کے ماہریں جانتے ہیں کہ اکثر حالات میں امن قائم کرنے کے لئے جنگ کرنا ضروری
ہو جاتا ہے جیسے ایک سرجن بدن کا فاسد مادہ دور کرنے کے لئے آپریشن کرتا ہے۔
اسلام خود کو کوئی نیا مذہب نہیں بتاتا۔وہ دین فطرت ہے۔اللہ نے انسانوں سماج
میں پہلے دن سے نبی ،رسول ، ہدایت دینے والے اور سیدھا راستہ دکھانے والےبھیجے
ہیں،جو پیغمبر بعد میں آئے ہیں انھوں نے اگلے پیغمبروں کی تصدیق کی ہے۔ بعض نبیؤں
کو صحائف آسمانی یعنی divine scripturesدئے گئے ہیں،ان میں سے بہت سے ضائع ہو گئے۔
بعض کی اصل نہیں ملتی ترجمے ملتے ہیں۔بعض کو بعد میں revise کیا گیا ہے۔ قرآن کا
دعوی یہ ہے کہ تم ایسی ہی ایک سورۃ یعنی کم از کم تین فقرے لکھ کر دکھا دو، اور
اپنے گواہوں کو بلا لوکہ وہی یہ فیصلہ کر دیں
تمھاری لکھی ہوئی عبارت قرآن کا مقابلہ کر رہی ہے یا نہیں۔ یہ دعوی اس عرب سماج میں کیا گیا جس کی فصاحت،
بلاغت ، زبان و بیان پر قدرت کو آج بھی تسلیم کیا جاتا ہے، عرب اپنے سوا ساری
دنیا کی ساری قوموں کو عجم یعنی گونگا یا
بے زبان سمجھتے ہیں۔مگر قرآن کے اس چیلنج کو کوئی قبول نہ کر سکا کہ اس جیسے تین
چار فقرے لکھ دیتا۔پھر اللہ نے قرآن میں
یہ بھی اعلان کیا کہ اسے ہم نے اتارا ہے اور ہم خود ہی اسکی حفاظت کرینگے۔چنانچہ
ہر زمانے میں مسلم سماج میں ہزاروں لاکھوں ایسے انسان رہے ہیں جنہیں شروع سے آخر تک پورا قرآن زبانی یاد ہوتا ہے
اور ہر سال رمضان کے مہینے میں پورا قرآن سنایا جاتا ہے
ایک بات اور بھی حیرت میں ڈالنے والی ہے، جو لوگ عربی زبان جانتے ہوں وہ اس کا
اندازہ کر سکتے ہیں کہ حضرت محمد ﷺ کی مبارک زبان سے نکلے ہوئے ایک ایک لفظ کو
محفوظ رکھا گیا ہے اور ان سے سیکڑوں کتابیں بن گئی ہیں ۔آپ کے ارشادات کو 'حدیث'
کہا جاتا ہے اور حدیث کی روایت کو ایک نسل سے دوسری نسل کی طرف ساڑھے پانچ لاکھ راویوں یعنی transmitters نے پہنچایا ہے – اور ان ساڑھے پانچ
لاکھ راویوں کے حالات زندگی یعنی biographical noticesبھی جمع کئے گئے ہیں تاکہ یہ
اندازہ ہو سکے کہ ان میں کون سچا تھا اور
کون جھوٹا تھا۔ مگر جتنی حدیثیں روایت ہوئی ہیں انکا style اور diction قرآن سے بلکل مختلف ہے۔اگر
قرآن حضرت محمد ﷺ کا لکھا ہوا ہوتا تو اس کے اور حدیث کے style کہیں کہیں تو
یکسانی ضرور پائی جاتی ، مگر ایسا نہیں ہے۔قرآن 23 برسوں میں نازل ہوا اور کبھی
لمبے عرصے تک کوئی وہی نہیں آتی تھی، وحی نہ آنے کا طویل تریں وقفہ پونے تین برس
بتایا گیا ہے۔ اس مدت میں آپ نے کبھی وحی آنے کا دعوہ نہیں کیا۔بلکہ نہایت بے چینی
سے اسکا انتظار کرتے رہے۔
قرآن نے صاف لفظوں میں اعلان کیا ہے کہ "اے محمد (ﷺ) لوگوں سے کہہ دیجئے
کہ میں تمھارے جیسا ہی ایک انسان ہوں ، بس اتنا فرق ہے کہ میرے پاس اللہ کا پیغام
(وحی) آتا ہے"۔ آپ نے کسی طرح کی کا
دعوہ نہیں کیا۔ عام انسانوں کی طرح رہے۔مخالف ہنسی بھی اڑاتے تھے کہ یہ کیسے
پیغمبر ہیں جو بازار میں چلتے پھرتے ہیں۔
آپ ﷺ نے دعا مانگی تو یہ کہ "اے اللہ ! مجھے مسکین بنا کر
زندہ رکھیو ، مسکینی کی حالت میں
ہی موت دیجیواور قیامت کے دن مجھے مسکینوں
اور فقیروں کے ساتھ ہی اٹھائیو۔"
اسلام میں داخل ہونے کے لئے کوئی خاص رسم نہیں ہے۔ بس زبان سے کلمہ پڑھنا ہوتا
ہے اور دل سے اسکو ماننا ہوتا ہے۔ کلمہ یہ ہے کہ اشہد ان لا الہ الا اللہ و
اشہد ان محمد ا عبدہ و رسولہ یعنی میں
گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں ہےاور یہ بھی گواہی دیتا
ہوں کہ محمد ﷺ اللہ کے بندے اور رسول ہیں۔
یہ تو بنیادی کلمہ ہے، ایک دوسرا کلمہ بھی ہے جسے ایمان مفصل کہا جاتا ہے۔ وہ یوں ہے کہ " میں ایمان لاتا
ہوں اللہ پر اور اسکے فرشتوں پر ، اور اسکی کتابوں پر ،اور اسکے رسولوں پر ، اور
اس پر ایمان لاتا ہوں کہ نیکی اور بدی ، یعنی اچھی اور بری ہر بات پر قدرت اللہ ہی
کو ہے، اور مرنے کے بعد حساب کتاب کے لئے اٹھائے جانےپر ایمان لاتا ہوں۔"
اس کلمے کا مطلب یہ ہے کہ ہمارا دین
انجیل اور تورات پر بھی ہےاور حضرت عیسی
مسیح علیہ السلام اور حضرت
موسی علیہ السلام کی نبوت پر بھی ہے۔ اگر
کوئی حضرت عیسی علیہ السلام یا حضرت موسی علیہ السلام کو نہ مانے تو وہ مسلمان
نہیں رہیگا۔ اگرچہ عیسائ اور یہودی حضرت محمد ﷺ کو نہ مان کر عیسائ اور یہودی رہتے
ہیں۔
اللہ کے فرشتوں اور اللہ کی بھیجی ہوئ کتابوں کا ذکر اس طرح کیا گیا ہےکہ ہمیں
ان سب مذہبی کتابوں کا احترام کرنا چاہئے۔ جنہیں کوئی قوم اپنی مقدس کتاب کہتی ہے۔
اسلام کا کہنا ہے کہ انسان کا فطری عقیدہ 'توحید' ہے۔
وقت گزرنے کے ساتھ اسمیں تبدیلی ہوتی رہی ہے جیسے
زردشتیوں نے دنیا میں نیکی اور بدی کی جنگ
دیکھی تو یہ سمجھ لیا کہ اچھائی کا خدا یزداں ہے اور برائی یعنی شر کا خدا
اہرمن ہے دونوں میں ازل سے جنگ ہو رہی ہےکبھی یہ غالب آجاتا کبھی وہ۔ کسی فرقے نے
کائنات کے مظاہر یعنی phenomenonکو اصل سمجھ لیا
اور نیچر کی پوجا کرنے لگے۔ کسی نے یہ غور کیا کہ مادہ بھی لا زوال ہے یہ
فنا نہیں ہوتا ، روپ بدل لیتا ہے، اسی طرح
روح بھی ازلی ہے و ابدی ہے وہ ایک بدن سے دوسرے بدن میں سفر کرتی رہتی ہے، کسی نے
سوچا کہ انسان جو دکھ درد میں مبتلا ہوتا ہے اسکا سبب خواہش نفس ہے، خواہشوں کو
ختم کر دو، نہ رہے گا بانس نہ بجے گی بانسری۔
اسلام یہ تعلیم دیتا ہے کہ اللہ ایک ہے۔ "اللہ" کے لفظ پر بھی غور
کر لیجئے ۔ عربی زبان میں God کو الہ کہتے ہیں
اور کسیcommon noun کو proper nounبنانے کے لئےالف لام کی طرح
آتا ہے۔ الہ پر الف لام آیاہے تو وہ اللہ ہو گیا۔ God کے ساتھthe تو نہیں آتا مگر یہاں آپ the Godسمجھ لیجئے۔
یعنی وہی ایک پوجا کا پاتر ہے، انادی ہے، اننت ہے، نرگن ہے، نراکار ہے، نہ وہ
کسی سے پیدا ہوا ، نہ اس سے کوئی پیدا ہوا، وہ کسی جگہ میں بھی بند نہیں ہے، ورنہ
محدود ہو جائےگا، اسکی کوئی سمت یا بھی نہیں ہے، وہ ہر جگہ ہے، ہر چیز کا خالق ہے
، پالنہار ہے، سب کو دیکھتا ہے، سب کو سنتا ہے، مگر اسکا دیکھنا آنکھ کے وسیلے کا
محتاج نہیں ، اسکے سننے کو کانوں کا واسطہ درکار نہیں، وہ نہ کھاتا ہے نہ پیتا ہے،
نہ سوتا ہے نہ تھکتا ہے۔ اسکے کوئی شکل نہیں کوئی صورت نہیں کوئی مورت نہیں۔ قرآن
کہتا ہے کہ اللہ زمین اور آسمانوں کا نور ہے۔
صوفیہ جب مراقبہ کرتے ہیں تو ایک منزل
ذات بحت یعنیpure and ultimate being کا دھیان کرنے کی آتی ہے ،
وہ کہتے ہیں کہ اس مرحلے میں کچھ نہیں سوجھتا ، سیاہی اور تاریکی نظر آتی ہے۔ جدید
سائنس بھی یہ کہتی ہے کہ نور یا جب بہت
زیادہ ہو جائے تو سیاہ ہو جاتی ہے۔
اللہ غنی ہے ہم سب فقیر ہیں۔ غنی اسکو کہینگے جو ان چیزوں کی احتیاج بھی نہ
رکھتا ہوجو اسکے پاس ہیں، فقیر وہ ہے کہ جو وہ نہیں رکھتا اسکا محتاج ہے۔
زندگی اور موت کا دینے والا بھی اللہ ہے، وہی ہے جو ایک حقیر سے بیج کو تناور
درخت بنا دیتا ہے۔ وہی ہے جس نے زمیں کی
مٹی میں اتنی طاقت بھر دی ہے کہ لاکھوں برس سے وہ پیداوار دے رہی ہے بلکہ
اب تو پہلے سے بھی زیادہ دے رہی ہے۔
اللہ ہی ہے جس نے اربوں کھربوں ستاروں کو ایک دوسرے سے ایسا باندھ دیا ہے اور
اتنے فاصلے پر رکھا ہے کہ وہ آپس میں نہ ٹکرائیں۔
وہی ہے جو بادل بھیجتا ہے پانی برساتا ہے، ہوا چلاتا ہے، اسی نے یہ کائنات
اپنے ایک اشارے سے پیدا کی ہے، اور اسی کے حکم سے ایک دن یہ فنا ہو جائےگی۔
انسان کو اللہ نے اپنا خلیفہ بنا کر بھیجا ہے، اسے کچھ اختیارات دئے ہیں کچھ
باتوں میں مجبور رکھا ہے، تقدیر ضرور لکھی ہے مگر تدبیر کو بھی اثر سے خالی نہیں چھوڑا
ہے۔
انسان کی عظمت کا جیسا تصور اسلام میں ہے شاید ہی کہیں اور مل سکے۔ اللہ کہتا
ہے کہ ہم نے انسان کو بہتریں نقشے پر پیدا کیا ہے، دوسری جگہ کہتا ہے کہ ہم نے
انسان کے پتلے میں اپنی روح پھونکی ہے، فرشتوں کو حکم دیا کہ انسان کے آگے سر
جھکائیں، جس نے یہ حکم نہ مانا اسے شیطان قرار دے کر نکال دیا گیا۔
لیکن انسان کی اس عظمت کے ساتھ
ایک اور آزمائش بھی ہے۔ اسلام آخرت پر زور دیتا ہے، یعنی اس زندگی کے بعد ایک اور
زندگی بھی ہے۔ سب انسان دوبارہ زندہ کئے جائنگے اور انہیں اس دنیا کی زندگی کے ایک
ایک چھن کا حساب دینا ہوگا، جو کچھ انہوں نے یہاں کیا تھا وہ سب replay کرکے دکھایا جائےگا، خود انسان کے ہاتھ
پاؤں وغیرہ گواہی دینگے۔ جس نے ذرہ بھر نیکی کی ہوگی اسکا بدلہ پائےگا، جس نے ذرہ
بھر بدی یا شرارت کی ہوگی اسکی سزا پائےگا۔
یہ امتحان فرشتوں کا نہیں ہوگا وہ لذت گناہ سے واقف ہی نہیں، حیوانوں کا بھی
نہیں ہوگا انہیں عقل ہی نہیں دی گئی، انسانوں کا حساب کتاب ہوگا اسلئے کہ انسان کو
کسی قدر اختیار بھی دیا ہے ، عقل بھی، وہ نیکی اور بدی کا علم بھی رکھتا ہے،جسمانی
خواہشات بھی۔ اسے اس زندگی میں توازن کے
ساتھ ایسے گزرنا ہوتا ہے جیسے نٹ رسی پر چلتا ہے۔
اسلام کا ایک اور وصف اخوت اور مساوات کا نذریہ ہے۔ اسلام میں کوئی اپنی قومیت
، یا نسب ، یا علم ، یا دولت یا عہدے کے اعتبار سے بڑا چھوٹا نہیں ہے۔ جو زیادہ
پرہیزگار ہے اسے دوسروں پر فضیلت حاصل ہے اور کسی کو نہیں۔ بادشاہ وقت بھی مسجد
میں جاکر اپنے دربان کے ساتھ صف میں کھڑا ہوکر نماز پڑھے گا۔ کسی انسان کا جھوٹا
نا پاک نہیں، کوئی پیشہ حقیر نہیں ،ہمافے سال بھر کے خرچ سے بچے ہوئے مال پر ڈھائی
فی صد زکاۃ ہے جسے فقیروں اور مسکینوں کا 'حق 'بتایا گیا ہے۔
عورتوں کو جتنے حقوق اسلام نے دئے ہیں اتنے اس زمانے میں کسی مذھب اور کسی تہذیب میں عورت کو حاصل نہیں تھے۔ طلاق
کو انتہائی دشوار بنانے کے لئے انتہائی آسان کیا گیا ہے۔اسلامی شریعت کے جو قانون
قرآن کی روشنی میں بنے ہیں ان میں کوئی تبدیلی کرنے کا کسی کو بھی اختیار
نہیں البتہ دوسرے قوانین میں حالات اور
زمانے کی رعایت سے اور علما کے اتفاق سے
ترمیم و تبدیل کی جا سکتی ہے۔
اسلام کا خلاصہ یہ ہے کہ انسانوں کےمعاملات آپس میں اچھے ہوں، اور ہر
انسان کا تعلق اپنے خالق اور پالنہار سے مضبوط ہو
اور اخلاص کے آدھار پر ہو۔
الحمدللہ ختم شد۔
No comments:
Post a Comment