Wednesday, May 29, 2013

Seerat e Tayyiba 2



آں حضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی مجلس میں دنیا کی باتیں بھی ہوتی تھیں۔ آپ کے سامنے اشعار پڑھے جاتے تھےلوگ ہنستے تو آپ تبسم فرماتے تھے۔ مسجد میں دور جاہلیت کے اشعار اور حکایات بھی سنائی جاتی تھیں، آپ ان سے کبھی تنفر کا اظہار نہ فرماتے تھے۔
آں حضرت کا کلام فصیح و بلیغ تھا۔ ٹھہر ٹھہر کر کلام فرماتےتھے۔ جابر بن عبدللہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ حضور کے کلام میں ترسیل و ترتیل تھی۔ یعنی ما فی الضمیر کو پوری طرح ادا فرماتے اور الفاظ کو وضاحت سے ٹھہر ٹھہر کر بولتے تھے۔ خطبہ ارشاد فرماتے وقت آپ کی آنکھیں سرخ ہو جاتی تھیں، آواز بلند ہو جاتی تھی اور اس میں زور پیدا ہو جاتا تھا۔
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: جب آں حضرت سے کوئی شخص ملتا اور مصافحہ کرتا تھا تو جب تک وہ شخص خود اپنے ہاتھ علیحدہ نہ کر لیتا تھا حضور دست مبارک نہ کھینچتے تھے اور جب وہ رخصت ہوتا تھا تو جب تک وہ منہ نہ پھیر لیتا تھا آں حضرت اپنا روئے مبارک اس کی طرف سے نہ پھیرتے تھے۔ 
راستے میں آپ تیز تیز چلتے تھے اور ادھر ادھر نہ دیکھتے تھے۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں
ما رایت احدا اسرع فی مشیتۃ من النبی صلی اللہ علیہ و سلم
کانت الارض تطوی لہ انا لنجھد و ھو غیر مکترث
میں نے چلنے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے زیادہ تیز رفتار کوئی نہیں دیکھا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ آپ کے لئے زمین لپٹی جا رہی ہے۔ ہم کوشش کرکے بھاگتے تھے اور وہ 
بے تکلف چلتے تھے۔

No comments:

Post a Comment