Friday, May 17, 2013

The Role of Muslims in modern India 3



مثال میں فتنئہ تاتار کو ہی یاد کیا جا سکتا ہے جس نے خلافت عباسیہ کی چولیں ہلا کر رکھ دی تھیں اور ایسی زبردست تباہی مچی تھی کہ مستقبل کے لئے امید کی کوئی ہلکی سی کرن بھی نظر نہیں آتی تھی، لیکن انجام کار اسلام ہی نے تاتاریوں کو جیت لیا اور وسط ایشیا میں ان کے ہاتھوں ہی اسلام کی بنیادیں مضبوط ہوئیں۔
تاریخ کی انہیں آزمایشوں میں سے ایک امتحان کا وقت یہ بھی ہے کہ ہندوستان کے مسلمان ایک ایسے معاشرے میں زندہ ہیں جس کی سابق میں کئی مثال نہیں ملتی۔ یہاں وہ ایک آزاد ہکومت کے باشندے ہیں جس کا نظام جمہوریت پر مبنی ہے، وہ نظام سیکولر ہے۔
یعنی امور سیاست کو مذہب سے کوئی دستوری تعلق نہیں ہے۔ حکومت یہاں حکومت کے ووٹوں سے بنتی ہے۔ مسلمان یہاں اقلیت میں ہیں اور کہیں انکے ووٹ 12/13 فیصد سے زیادہ نہیں ہیں، لیکن اگر وہ اپنی اجتماعی قوت کو برقرار رکھیں اور اس رائے کا دؤر اندیشی کے ساتھ استعمال کریں تو وہ فیصلہ کن بھی ہو سکتے ہیں۔
ہندوستانی سماج میں متضاد فکری دھارے موجود ہیں۔ یہاں ترقی پسند ذہن بھی ہیں اور احیائ پسندی بھی ہے۔ تنگ نظری اور عصبیت کبھی اس تصویر کوبہت دھندلا بھی کر دیتی ہے۔ لیکن پورے ہندوستانی سماج کو جس راستے پر جانا ہے اس پر چلنے کے لئے ترقی پسندانہ فکر سے رشتہ توڑ دینا بھی ممکن نہیں ہے۔ ہندوستان ایک ایسا ملک ہے جس میں بہت سی زبانیں بہلی جاتی ہیں اور متعدد مذاہب کے پیرو یہاں بستے ہیں۔ یہ ملک اتنا وسیع ہے کہ یہاں ایک زبان، ایک کلچر اور ایک مذہب کبھی ہوا ہے ، نہ ہو سکتا ہے۔یہاں کے مقامی مذاہب میں بھی کوئی بنیادی وحدت نہیں ہے، کوئی محض رسوم و رواج کا مجموعہ ہے، کسی میں نسل پرستی اور طبقہ واریت کا گہرا رجحان موجود ہے۔ ان تضادات کا نتیجہ یہ ہے کہ ہندوستانی سماج حقیقی مساوات کے تصور سے کبھی آشنا نہیں ہو سکا اور مساوات ہی جمہوریت کا بنیادی پتھر ہے، اسلام کی نظریاتی بنیاد ہی میں وہ مساوات موجود ہے جس سے جمہوریت برگ و بار لاتی ہے۔ نئے ہندوستانی معاشرے کو مسلمانوں کی یہ سب سے 
بڑی دین ہو سکتی ہے۔  
نیا ہندوستان جن راہوں پر جانا چاہتا ہے، یہ راستے کہاں تک جاتے ہیں، اس پر پندوستانی مسلمانوں کو سب سے زیادہ غور و فکر کرنا چاہئیے اور اس کے لئے ملت اسلامیہ کی فکری تعمیر بہت ضروری ہے۔
پچھلے 38 برسوں مین مسلمان دفاعی پوزیشن میں رہے ہیں اور انہیں اپنی شناخت اور اپنی ثقافت کو بچانے ہی کی سب سے زیادہ فکر رہی ہے، وہ مجموعی ہندوستانی سماج کو کچھ نہیں دے پائے ہیں۔
انہیں اس دفاعی مورچے سے ہٹ کر بھی قومی و ملکی مسائل میں گہری دلچسپی لینا چاہئے، اس لئے کہ وہ اس بڑے ہندوستانی سماج کا ایک لازمی حصہ ہیں۔ یہی نہیں انہیں عالمی مسائل سے بھی اتنا ہی تعلق ہونا چاہیئے۔ لیکن مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہندوستانی مسلمان قائدوں کی طرف سے امن عالم کے مسئلے پر کبھی تشویش کا اظہار نہیں ہوتا، وہ روزافزوں ایٹمی اسلحہ کے خلاف کبھی آواز نہیں اٹھاتے بلکہ اس وقت مہلک ہتھیاروں کے سب سے بڑے خریدار مسلم ممالک ہی بنے ہوئے ہیں۔  افریقہ میں بھیانک قحت پڑتا ہے تو انکی صدا بلند نہیں ہوتی۔ وہ صرف اپنے مسائل میں الجھے رہتے ہیں۔ مقامی مسائل بھی اہم ہیں لیکن انہیں امت کے ایک طبقے کی تحویل میں دیا جا سکتا ہے۔ عالمی برادری کا ایک حصہ ہوتے ہوئے عالمی مسائل سے آنکھیں بند رکھنا یا انہیں غیر اہم سمجھنا قوم کے زندہ ہونے کی علامت نہیں۔
اس وقت جو نزہ سلاح کا مسئلہ ہے اس میں مذہب کی قوت سب سے زیادہ مؤثر ہو سکتی ہے۔ اسکے لئے روم کے کلیسا سے تو آواز بلند ہوتی ہے، کسی مسلمان پیشوا کا کوئی بیان نہیں آتا۔ ایسا کیوں ہے؟
ہندوستان ایک وسیع و عریض ملک ہے، اس کی آبادی ستر کروڑ سے زیادہ ہے اور اس میں 78 فی صد باشندے زراعتی زندگی بسر کرتے ہیں، اور دیہاتوں میں رہتے ہیں۔ کروڑوں انسان وہ ہیں جو خط افلاس سے نیچے اور جانوروں سے بدتر زندگی بسر کر رہے ہیں۔ زندگی کی معمولی اور بنیادی سہولتیں بھی انہیں میسر نہیں۔ تعلم کا ابھی ان تک گزر ہی نہیں۔ اس صدیوں کے پس ماندہ طبقہ کو متمدن اور بافراغ زندگی کے معیار تک لانے کے لیے بڑی طویل جدہ جہد اور دؤر رس نتائج پیدا کرنے والی منصوبہ بندی درکار ہے۔ حکومت وقت کے سوچنے کا انداز یہ نہیں ہے اور نہ ہو سکتا ہے کہ مسلمانوں کی 
حالت بہتر کرنی ہے یا ہندؤوں کی۔ 


اصل مسئلہ پسماندہ ہندوستانی سماج کی فلاح اور ترقی کا ہے جس میں مسلمان بھی آ جاتے ہیں۔ سماجی بہبود کی وزارت نے اور دوسرے محکموں نے ایسی صدہا اسکیمیں بنائیں ہیں جنھیں پورا کرکے سماج کا سدھار کیا جا سکتا ہے۔ یہ منصوبے کو آپریٹو سوسائٹیوں اور رجسترڈ رضا کار اداروں کے ذریعے برؤے کار لائے جاتے ہیں۔ لیکن افسوس ہے کہ مسلمانوں نے ان منصوبوں کی اہمیت کو بالکل نہیں سمجھا ہے، انکا ادھر التفات نہیں ہے۔ ایک زمانہ گزرنے کے بعد جب ان اسکیموں کے اثرات ظاہر ہونا شروع ہونگے تو مسلمان دیکھیں گے کہ وہ اور دو تین سو سال پیچھے چلے گئے ہیں۔
آج کی دنیا میں سماجی ترقی کے کام عوام کے اشتراک سے ہوتے ہیں۔ حکومت صرف پلاننگ کرتی ہے، اور اسکے لئے مال و وسائل مہیا کرتی ہے۔ تعلیم بالغان کے منصوبوں پر ہی وزارت تعلیم کروڑوں روپے خرچ کر رہی ہے، اور قبائلی علاقوں میں ایسے بہت سے مرکز کھولے گئے ہیں۔ مسلمان کیوں اس میں حصہ نہیں لیتے؟ میں اسکا کوئی معقول سبب جاننے سے قاصر ہوں۔
یہ سائنس اور ٹیکنالوجی کا زمانہ ہے۔ ہندوستان انتھک جد و جہد کر رہا ہے کہ وہ اس میدان میں ترقی یافتہ ممالک کے برابر نہیں تو انکے لگ بھگ ہی ہو جائے۔ اس میں بڑی حد تک کامیابی ہو رہی ہے۔ ہمارے فولاد کے کارخانے مستقبل میں صنعتی ترقی کی ضمانت ہیں اور صنعتوں سے ترقی یافتہ زرعی آلات بھی پیدا ہوں گے۔ آ یندہ پچاس برسوں میں ملک کا نقشہ یکسر بدل چکا ہوگا۔ سارے ملک میں لاکھوں کارخانے ہونگے، کروڑوں مشینیں ہونگی اور وہ دستکار جو روایتی اوزاروں سے کام لے کر گھریلو صنعتیں تیار کیا کرتے تھے، صرف تاریخ کا ایک حصہ ہوکر رہ جائیں گے۔ مسلمانوں کو اس کا بھی احساس نہیں ہے کہ ان کی زبان و ثقافت کے بعد ان کی چھوتی چھوٹی صنعتوں اور دستکاریوں کا مستقبل بھی خطرے میں ہے۔ انھوں نے صنعتی تربیت کے ادارے قائم نہیں کئے ہیں اور جدید آلات سے کام لینے کی اہمیت کو وہ نہیں سمجھ رہے ہیں۔ انگریزوں کی کامیابی کا سبب بھی یہی تھا کہ وہ بھاری توپوں کے مقابلے میں ہلکی بندوقیں اور رائفل لے کر آئے تھے۔
یہاں قدیم و جدید کی آویزش ضرور موجود ہے، احیاء پسندی اور عصبیت کا بھی زور ہے۔ لیکن تاریخ پر گہری نظر رکھنے والے جانتے ہیں کہ ہر آویزش کے بعد ایک نیا توازن پیدا ہوتا ہے۔ اپنے مستقبل کی فکر کرتے ہوئے ہمیں یہ دھیان رکھنا ہوگا کہ وہ توازن ہمارے حق میں ہو اور اسکے لئے تعلیمی اور صنعتی میدان میں نمایاں طور سے حصہ لینا ازبس ضروری ہے۔ بلکہ تجارت اور ذرائع حمل و نقل کی بھی بڑی اہمیت ہے۔ ہم  نےمسلمانوں کی تعلیم کے ہر پہلو کی فکر نہیں کی۔ تھوڑا بہت دینی تعلیم پر دھیان دیا ہے، لیکن صنعتی تعلیم سے دین کا تحفظ بھی وابستہ ہے۔
یہ صرف ہندوستانی مسلمانوں ہی کا مسئلہ نہیں ہے، یہ چیلنج پورے مشرق کے مسلمانوں کے سامنے موجود ہے۔ مشرق وسطی میں زر سیال بے دردی سے بہایا جا رہا ہے اور اس سے مغرب کی صنعتوں کو فروغ ہوا ہے، اگر مشرق نے صنعتوں کے میدان میں قدم رکھنے سے ایسی بے اعتنائی برتی تو اس کا سیاسی مستقبل غیر یقینی ہے اور وہ کبھی سیاسی و معاشی غلامی سے آزاد نہیں ہو سکتا۔ آزادی صرف اندرونی خودمختاری کا نام نہیں ہے،یہ افرادی اور اجتماعی قوت کے صحیح استعمال کا نام ہے۔ ہندوستانی مسلمانوں نے اپنی افرادی قوت کو ابھی تک مجتمع نہیں کیا ہے، نہ اس کی اہمیت کو سمجھا ہے، نہ اس کا صحیح استعمال کیا ہے۔ یہ قوت اب تک ضائع ہوتی رہی ہے اور اس کا فائدہ صرف حریفوں کو پہنچا ہے۔   
   

No comments:

Post a Comment