Tuesday, May 14, 2013

Explanation of the word Hadhrat (continued)

عربی کا حال تو آج بھی یہی ہے کہ آپ کسی بھی شخص سے کہیں گے کما 'قال حضرتکم' (جیسا کہ حضرت نے فرمایا) لیکن لقب تعظیمی نام کے ساتھ یوں لکھیں "السید ذیل سینغ" یا "السیدۃ اندراغاندی" مگر 'حضرۃ' صرف اس صورت مین لکھیں گے جیسے لفافے پر پتا لکھیں 'الی حضرۃ فلان۔۔۔'
قدیم زمانے میں دار الخلافہ کو "حضرت"  اسلئے کہا جاتا تھا کہ وہاں بادشاہ موجود ہوتا تھا۔ چناں چہ قدیم کتابوں میں "حضرت دہلی" بلکہ صرف "حضرت" بھی لکھا ہوا ملے گا۔جیسے امیر خسرو کا شعر ہے:؎
حضرت دہلی کنف دین و داد
جنت عدن است کہ آباد باد
اب رہا اردو میں اسکا استعمال تو ملائکہ، انبیاء،اولیاء اور صلحاےء امت وعلماءکے ساتھ اس لفظ کا استعمال اس پر دلالت کرتا ہے کہ وہ کوئی زمانہ گزشتہ کی ایسی شخصیات نہیں ہیں جو نابود ہو گئیں ہوں۔ ہم انکے زندہ، موجود اور مشہود ہونے کا یقین رکھتے ہیں یا ایسا ہی احترام کرتے ہیں جیسے وہ زندہ ہوں۔
خاندان کے بزرگوں یا استادوں اور بڑے شاعروں کے ساتھ یہ تعظیمی لفظ ازراہ عقیدہ و مبالغہ استعمال ہورہا ہے۔
اگر کوئی لفظ کسی زبان میں رائج ہو جائے تو اس کے رواجی معنوں کا لحاظ کرنا پڑتا ہے۔
مثلا نماز اور روزہ اسلامی عبادت کے نام نہیں ہیں، یہ فارسی لفظ ہیں اور آتش پرستوں سے متعلق ہیں مگر اب انہیں صوم و صلاۃ کے معنوں ہی مین استعمال کیا جاتا ہے۔ اسلئے اردو کے مزاج کی رعایت کرتے ہوئے اسی طرح لکھنا چاہئے کہ پڑھنے والے کو ازخود اندازہ ہو جائے کہ جس شخص کے لئے یہ تعظیمی لقب استعمال ہو رہا ہے اس کی حیثیت کیا ہے۔ اگر کوئی اسکے خلاف کرتا ہے تو ازروئے قواعد لغت ہم اس کی گرفت نہیں کر سکتے مگر اس کے اسلوب کو اردو کے مزاج سے ہم آہنگ نہیں سمجھا جائے گا۔

No comments:

Post a Comment