Saturday, October 19, 2013

تقابللی مطالعہء مزاہب7

کسی مزہب کو سمجھنے کے لئے یہ دیکھنا ہوگا کہ وہ کس تہزیب کی آغوش میں پلا ہے اور اس تہزیب کا سفر کہاں سے شروع ہوا ہے، اس نے بنی نوع انسان کو کیا دیا ہے، دوسری تہزیبوں پر کہاں تک اثر ڈالا ہے، دوسروں سے کیا لیا ہے، انکو کیا دیا ہے۔ کوئی تہزیب یا مزہب بھنورے میں پلا ہوا نہیں ہے۔ افکار سے خوشہ چینی اور لین دین کا فطری عمل ازل سے جاری ہےاور ابد تک رہے گا۔ بعض تنگ نظر لوگوں کو یہ بات گوارا نہیں ہوتی کہ انکی تہزیب یا مزہب نے بھی کسی سے کچھ لیا ہے، اس کو سامنے لایا جائے۔ لیکن تقابلی مزہب ایسی تنگیء نظر کے ساتھ ممکن نہیں۔ ہماری نظر مزہبوں کے مشترک عناصر پر رہنی چاہئے۔
پڑے خانوں میں بانٹیں تو مزاہب میں ایک طرف کثرت پرستی ہے جس میں مظاہرِ فطرت کی پوجا ملے گی، حیوانوں کی پرستش ،درختون کی پوجا، دریاؤں کی تقدیس کسی نہ کسی شکل میں ہر مزہب میں موجود ہے۔  لیکن کثرت پرستی کا فطری سفر توحید کی طرف ہوا ہے۔ یہ کثرت کبھی گھٹ کر تیں میں، کہیں دو میں، رہ گئی ہے۔ 
پھر وحدت کا نظریہ شروع ہوتا ہےتو اس کو بھی فلسفیانہ بحثوں نےتوحیدِخالص تک پہنچایاہے۔
ہر مزہب میں کچھ باتیں عقل و فہم سے ماورا ہیں۔ کچھ حصہ غیب کا ہے، کچھ توہمات ہیں،سحر و افسوں۔ طلسمات، نذرو نیاز، ٹوٹکے اور غیبی طاقتوں کو منانے یا قابؤ میں لانے کے کچھ نسخےہیں۔ ان کا تقابلی مطالعہ بھی اہم نتائج تک پہنچاتا ہے۔ 

Wednesday, October 16, 2013

تقابلی مطالعء مزاہب 6

تقابلی مزہب کے بارے میں چند بنیادی شرائط یاد رکھنا ضروری ہیں جن کے بغیر اپنے مزہب اور عقیدے کے علاوہ کسی دوسرے مزہبی نظام کا حق بھی ادا نہیں ہوتا۔
ہم کسی عقیدے کو صحیحح اور کسی کو غلط سمجھتے ہیں، اس سے تقابلی مطالعے میں صحیح نتائج تک پہنچنا دشوار ہو جاتا ہے۔ یہ بات دوسرے ہے کہ ایک غیر جانبدارانہ تحقیق ہمیں خود ہی کسی نتیجے تک پہنچا دے۔----- تقابلی مزہب کی دوسری بنیادی شرط کسی ایسی کلاسیکی زبان سے ماہرانہ واقفیت نہ ہونے کی صورت میں اچھی طرھ نہیں سمجھ سکتے۔ اسی طرح ویدک دھرم کو سنسکرت کے بغیر ، بدھ مت کو پالی کے بغیر ، یہودیت کو عرابی جانے بغیر نہیں سمجھا جا سکتا۔
ہر مزہب کی کچھ بنیادی کتابیں ہوتی ہیں جن سے اصولِ مزہب کا علم حاصل ہوتا ہے، بعد میں علما کی بحثیں، تاویلیں اور اختلافات کچھ کا کچھ کر دیتے ہیں۔ کسی مزہبی فکر کی صحیح واقفیت ان سب اختلافات سے دامن بچا کر ہی حاصل کی جا سکتی ہے۔ 
انسان کی تہزیب ایک بڑا کینوس ہے۔ مزہب اس کا ایک مظہر ہے، اسی طرح زبان بھی۔ زبانیں بھی خاندانوں میں بٹ جاتی ہیں۔ عراقی تہزیب، مصری تہزیب،آرائی تہزیب، ایرانی، یونانی، رومی، کیلٹی، ٹیوٹانی، چینی، عربی، سالدی تہزیب، ان میں سے ہر ایک کی علاحدہ تاریخ ہے، دائرہء اثر ہے، مظاہر ہیں اور نقظہء عروج و زوال ہے۔