Friday, May 24, 2013

Seerat e Tayyiba



Trying  to present some of the parts of this Book on Seerah based on Ibn Sad's accounts.

 قدیم اور مستند مؤرخ ابن سعد کی روایت    

آں حضرت کے فضائل و اخلاق اور سیرۃ طیبہ


آں حضرت  صلی اللہ علیہ و سلم کے فضائل و محامد اخلاق و شمائل جو ابن سعد کی جمع کردہ روایات سے ظاہر ہوتے ہیں ان کا ایک قابل ذکر پہلو یہ ہے کہ ان میں کہیں مبالغہ یا تصنع کا شائبہ نہیں ہے۔راویوں نے آں حضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی جو صفات عالیہ بیان کی ہیں وہی ہیں جو ہم آپ کے اعمال و افعال میں مشاہدہ کرتے ہیں۔ ایک مشہور روایت ہے کہ حضرت عائشہ  رضی اللہ عنہا سے پوچھا گیا کہ حضور  صلی اللہ علیہ و سلم کے اخلاق بیان کریں تو انھوں نے فرمایا کہ  آپ کا اخلاق قرآن تھا۔

یعنی جو کچھ قرآن میں لکھا ہے وہ آں حضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا عمل تھا۔ اس سے زیادہ مختصر اور جامع تبصرہ سیرۃ طیبہ پر شاید نہ کیا جا سکے۔ کتب رجال سے حضرت عائشیہ رضی اللہ عنہا کی فصاحت و بلاغت کی گواہی ملتی ہے۔ اور سیرۃ نبوی پر ان کا یہ تبصرہ اس کی مثال ہے۔

حضرت انس رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ آں حضرت صلی اللہ علیہ و سلم تمام انسانوں میں بہترین اخلاق والے تھے۔کبھی سڑک پر زور سے گفتگو نہ فرماتے تھے۔ فحش کا شائبہ بھی 
نہ تھا۔ برائی کا بدلہ نہیں لیتے تھے بلکہ درگزر فرماتے تھے۔
زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے سیرۃ کے بارے میں سوال کیا گیا تو انھوں نے کہا کہ میں آں حضرت صلہ اللہ علیہ وسلم کے پڑوس میں رہتا تھا اور جب وہی نازل ہوتی تھی تو میں ہی لکھتا تھا۔ جب ہم دنیا کا ذکر کرتے تھے تو رسول اللہ صلہ اللہ علیہ و سلم ہمارے ساتھ شریک ہوتے تھے۔ کھانوں کا تذکرہ ہوتا تھا تو آں حضرت صلہ اللہ علیہ و سلم بھی ہماری باتوں میں حصہ لیتے تھے، اور کیا کیا بتاؤں؟
ہشام بن عروۃ نے حضرت عائشہ کی روایت سے بیان کیا کہ حضور صلہ اللہ علیہ و سلم گھر میں ہوتے تھے تو اپنے کپڑوں کو پیوند خود لگا لیتے تھے۔ اور اپنے جوتے کی مرمت خود کر لیا کرتے تھے۔ آں حضرت صلہ اللہ علیہ و سلم نے جہاد فی سبیل اللہ کے سوا کبھی اپنے ہاتھ سے کسی مرد یا عورت کو نہیں مارا۔ جب آپ کے سامنے دو راستے ہوتے تھے تو جو آسان ہوتا اسے اختیار فرماتےتھے۔ آپ شرم و حیا میں کنواری لڑکیوں سے زیادہ شرمیلے تھے۔
آپ کا چہرہءمبارک ایسا آیئنہ تھا کہ جب کوئی بات ناگوار ہوتی تھی آپ کے چہرے پر تاثرات سے معلوم ہو جاتا تھا۔
آپ سے کسی سائل نے کوئی سوال کیا تھا تو آپ نے اسے "نہیں" کہ کر نہ جانا۔ ہر ایک کا سوال پورا کرتے تھے۔ اگر آپ کو کوئی کام نہ کرنا ہوتا تھا تو انکار نہ فرماتے تھے، خاموشی اختیار کر لیتے تھے۔ بیت الخلاء سے باہر تشریف لاتے تو وضو فرماتے تھے۔
آپ کی بے تکلفی کا حال یہ تھا کہ بے پالان کے گدھے پر سواری کرتے اور غلام کے گھر دعوت ہوتی تو تشریف لے آتے۔ کھانے کے بعد اپنی انگلیاں چاٹ لیتے تھے۔ اپنی بکری کو اپنے ہاتھ سے باندھتے تھے۔ آپ کی تعلیم ترک دنیا کی نہیں تھی۔ چنانچہ آپ نے فرمایا:
"میں نماز پڑھتا ہوں ،سوتا ہوں، روزہ رکھتا ہوں، افطار کرتا ہوں، نکاح کرتا ہوں، جو کوئی میری سنت سے انحراف کرے وہ میری امت میں سے نہیں ہے۔"


No comments:

Post a Comment