Thursday, June 20, 2013

جدید سائنس اور اسکا مقصد وجود 5

اسلام ترقی علوم کے خلاف نہیں تھا، اسی لئے عہد عباسی میں دار الحکمۃ قائم ہوا۔ سنسکرت اور یونانی اور فارسی سے طب، فلسفہ اور منطق کی کتابوں کے تراجم ہونے لگے۔ سائنس کی ترقی سے اسلام کو کوئی خطرہ نہیں تھا، اس لیے کہ قرآن نے خود بار بار دعوت دی ہے کہ   اپنے نفس میں غور کرو 'و فی انفسکم افلا تبصرون 21-51- مظاہر کائنات میں غور و تدبر سے کام لو۔ افلا ینظرون الی الابل کیف خلقت۔ و الی السماء کیف رفعت 18,17.88۔ پھر اس پر غور کرو کہ جو شے عدم سے وجود میں آئی ہے کیا وہ پھر وجود سے عدم میں نہ جائےگی اور جو اسے ایک بار لباس وجود دے سکتا ہے کیا اسے یہ قدرت حاصل نہیں ہے کہ وہ بوسیدہ ہڈیوں میں پھر جان ڈال دے۔
غرض تفکر فی الکائنات اور حکمت تکوین میں تامل و تدبر قرآن کی اساسی تعلیم ہے۔ جتنا کائنات کے اسرار سے پردے اٹھاتے جاؤگے اللہ کا خوف اپنے دل میں زیادہ پاؤگے۔ انما یخشی اللہ من عبادہ العلماء
عیسائیت نے سائنس کی مخالفت اس لئے کی تھی کہ وہ اسلام کی طرح حکمت تکوینی میں غور کرنے کی دعوت نہیں دیتی تھی۔ اسے اپنی بنیادیں متزلزل ہوتی نظر آئیں تو اس نے سائنس کی مخالفت میں محاذ قائم کر لیا اور چونکہ اس کی بنیاد عقلیت پسندی پر نہیں تھی، اسلئے سائنس سے اسے شکست کھانی پڑی۔ آخر سمجھوتہ اس پر ہوا کہ علوم طبیعیات سے  خدا کو بے دخل کر دیا جائے۔ تم اپنے گھر خوش ہم اپنے گھر خوش۔
اسلام نے کبھی عقلیت کی نفی نہیں کی اور طبیعیات و ما بعد الطبیعیات کے رشتے کو جورے رکھا۔ اس کی بہتریں مثال یہ واقعہ ہے کہ جب حضرت ابراہیم بن محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا انتقال ہوا، اتفاق سے اسی دن سورج گہن بھی ہو گیا۔ لوگوں نے کہنا شروع کیا کہ یہ ابراہیم کی وفات کے باعث ہوا ہے، صدمے سے سورج کا کلیجہ بھی شق ہو گیا۔ ایک بے پڑھی لکھی قوم کے عقیدت مندوں کو اس عقیدے پر اور بھی راسخ کر دینا کچھ دشوار نہ تھا۔ ادنا درجہ یہ تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اس موقعہ پر خاموش رہتے، نہ ان کی تائید کرتے نہ تردید۔ مگر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: ایھا الناس ان الشمس و القمر ایتان من ایات اللہ لا ینکسفان لموت احد ولا لحیاۃ احد فاذا رایتم ذالک فافزعوا الی المساجد----- و دمعت عیناہ۔ (بخاری، مسلم، مسند احمد، الدارمی)
لوگوں چاند سورج اللہ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں۔ یہ کسی کی موت یا زندگی پر نہیں گہناتے، جب تم ایسا دیکھو تو مسجدوں میں جاؤ (عبادت کرو)۔۔۔۔۔ یہ کہتے ہوئے آپ کی آنکھیں ڈبڈبا گئیں۔
اس روایت میں بھی فافزعوا الی المساجد کے الفاظ طبیعیات و ما بعد طبیعیات کے رشتے  
 کی گواہی دے رہے ہیں۔ مسلمان کبھی علوم سے بدکے نہیں۔ یونانی فلسفے کے عربی تراجم نے بہت سے عقائد پر کاری ضرب لگائی اور علما کو لا یعنی بحثوں میں الجھا لیا، تب بھی انھوں نے یونانی علوم پر اپنا دروازہ بند نہیں کیابلکہ ان فلسفیوں کے نظریات کو تحقیق کی کسوٹی پر پرکھااور یونانی فلسفیوں کو مجبور کر دیا کہ وہ افلاطونی نظریات پر نظر ثانی کریں۔ یونانی فلسفہ عقیدے کی جڑ کاٹتا تھا، مسلمان علما نے اس کا مقابلہ کرنے کے لیے 'علم الکلام' ایجاد کیا، جو عقیدے کے اثبات کے ساتھ حیات و کائنات کے مسائل پر بحث کر سکتا ہے۔

No comments:

Post a Comment