Thursday, June 20, 2013

جدید سائنس اور اسکا مقصد وجود 4

جدید اصطلاح میں علم سائنس ہی کو کہتے ہیں۔ اس سے یہ سمجھنا غلط ہوگا کہ علم کے بارے میں جو کچھ کہا جا رہا ہے وہ صرف علم دین کی حد تک محدود ہے۔ علماے قدیم نے تمام علوم کو سمیٹ کر دو خانوں میں بانٹ دیا: ایک کو وہ 'منقول' کہتے ہیں جس کا تعلق تاریخی شعور سے ہے۔ دوسرے کو 'معقول' کہا جاتا ہے جس کی بنیاد عقلیت پسندی پر ہے۔
مشہور مقولہ ہے : 'العلم علمان علم الادیان و علم الابدان'۔ یعنی علم کی دو قسمیں ہیں فزکس اور میٹا فزکس۔ ان میں سے کسی کو کمتربتایا گیا ہے ، نہ ایک کو دوسرے پر ترجیح دی گئی ہے۔ لیکن اسلامی سائنٹفک نظریہ یہی ہے کہ علم کی ان دونوں شاخوں کو ایک وحدت کے روپ میں دیکھا جائے، نہ ان کو ایک دوسرے سے بیگانہ سمجھا جائے، نہ ان میں سے کسی کی نفی کی جائے۔ مغربی سائنسی فکر نے فزکس اور میٹا فزکس کے درمیان ایک دیوار کھڑی کر دی جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مذہبی عقائد سے عقلیت معدوم ہو گئی اور سائنس عقیدے سے محروم ہو گئی۔ ریاضی اور الجبرا میں بال کی کھال کھینچنے والی قوم آج بھی تثلیث میں وحدت پر ایمان رکھتی ہے، چاہے ریاضی لاکھ سر پٹکے کہ تیں ایک اور ایک تین کیسے ہو سکتے ہیں، مگر انھوں نے بنا کر دکھا دیا۔
اسلام میں بالکل ابتدا ہی سے حفظ روایات کا اہتمام ہوا، پھر تدوین و تحقیق شروع ہو گئی، اور اصول و کلیات وضع ہونے لگے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ابو الاسود الدؤلی کو عربی زبان کی قواعد لکھنے پر معمور کیا تو یہ کوئی معمولی کارنامہ نہیں تھا۔ عھد بنی امیہ کے آغاز ہی میں علم الکیمیا خاصی ترقی کر چکا تھا۔ یزید ابی سفیان کو کیمیا سازی کا شوق تھا اور کشتے پھونکنے کے لئے اس 
نے متعدد قسم کے تیزاب ایجاد کر لئے تھے۔



    

No comments:

Post a Comment