Saturday, June 15, 2013

جدید سائنس اور اس کا مقصد وجود 3

اس تاریخی شعور کا فطری اقتضا یہ تھا کہ ایک واضع سماجی شعور بھی پیدا ہو۔ اس کا اندازہ اسلام کے سماجی قوانین کو دیکھ کر کیا جا سکتا ہے۔ حضرت عمر فارؤق رضی اللہ عنہ نے اپنے عہد خلافت میں جو اصلاحات نافذ کیں وہ ایک نہایت 
ترقی یافتہ سماجی شعور کا پتہ دیتی ہیں۔ انھوں نے اعلان کیا
و للہ لئن بقیت الی ھذہ العام المقبل لا لحقن آخر الناس 
باولھم و لاجعلنھم رجلا واحدا
خدا کی قسم اگر میں آنے والے سال تک زندہ رہ گیا تو آخری آدمی کو پہلے سے ملا دونگا اور تمام انسانوں کو ایک جیسا بنا کر چھوڑونگا۔
دوسرے موقعہ پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا 
وللہ لئن سلمنی اللہ لادعن ارامل اھل العراق لا یحتجن الی احد من بعدی ابدا
خدا کی قسم اگر اللہ نے مجھے سلامت رکھا تو عراق کی بیواؤں کو اس حالت میں چھوڑوں گا کہ وہ میرے بعد ہر گز  کسی کی دست نگر نہ رہیں۔
عہد حاضر کےنظام ہائے حیات میں سماجی تحفظ   کی اس سے زیادہ کون سی 
ضمانت دی گئی ہے؟  
تاریخی اور سماجی  شعور کسی قوم میں اتنا ترقی یافتہ ہو اور سائنسی شعور  موجود نہ ہو یہ ممکن ہی نہیں ہے۔ اس لیے اسلام اپنے سیاسی انتشار کے دور میں بھی کبھی عقلیت اور سائنس کا حریف نہیں رہا ۔ قرآن کریم کی پہلی وحی کا پہلا لفظ اقراء ہے۔ یعنی پڑھ۔ مگر اس کے آگے وہ بات ہے جو جدید مغربی سائنسی فکر کو نہیں بھاتی۔ یعنی اسم ربک الذی خلق یہیں سے اسلامی مذہبی فکر اور مغربی  سائنسی فکر کا اختلاف شروع ہو جاتا ہے اور یہ فاصلہ بڑھتے 
بڑھتے بعد المشرقین میں تبدیل ہو جاتا ہے۔
ہمارے قدیم علما اور مفسرین بھی جب اولیات تخلیق سے بحث کرتے ہیں تو کہتے ہیں کہ اللہ نے سب سے پہلے قلم کو پیدا کیا۔ قرآن قلم کی حرمت کی قسم کھاتا ہے ن والقلم و ما یسطرون (1-68) اور قلم کو وسیلئہ علم سمجھتا ہے۔ علم بالقلم  (4-96) اور علم وہ ہے جو سن سے پہلے آدم علیہ السلام کو ودیعت کیا گیا اور جو اس کے لیے اشرف المخلوقات ہونے کا سبب بنا۔ و علم آدم الاسماء کلھا (31-2) یہ تعلیم خود مبداء فیاض سے ملی تھی، اسلئے انسان کو ملائکہ سے بھی افضل قرار دیا گیا اور کہا کہ انی اعم ما لا تعلمون (30-2) دوسرے مذاہب میں طاقت کے مختلف مظاہر کو دیوتا کہا جاتا ہے اور انسان سے یہ مطالبہ کیا جاتا ہے کہ وہ ان کو سجدہ کرے۔ یہاں فرشتوں کو (جو بمنزلہ دیوتا ہیں اور لفظ ایل بمعنی الہ جن کے نام کا جزو ہے) حکم دیا جاتا ہے کہ انسان کے سامنے سجدہ ریز ہوں۔  
و اذ قلنا للملائکۃ اسجدو لآدم فسجدو الآ ابلیس۔ ابی واستکبر و کان من الکافرین۔ (34-2) ابلیس نے سجدہ کرنے سے انکار کیا، یعنی وہ فرشتوں کو انسان سے افضل ماننے والوں میں سے تھا، اس لیے اسے ابد تک کے لیے مظہر شر و فساد قرار دے دیا گیا۔ اس لیے کہ خیر و اصلاح انسانی عظمت کا اعتراف کرنے ہی میں ہے اس سے زیادہ عقی اور سائنسی رویہ کیا ہو سکتا ہے؟ علم چوں کہ شرف انسانیت ہےاس لیے اس کا احترام بھی واجب قرار دیا گیا۔یعنی ادنا درجہ یہ ہے کہاگر خود علم حاصل نہ کر سکے تو علما سے محبت اور ان کا احترام کرے- اور علم کے پانچ مدارج مقرر کیے:
اول العلم الصمت و ثانی الاستماع و الثالث الحفظ و الرابع العمل الخامس نشرہ۔

                                    

No comments:

Post a Comment