Monday, September 16, 2013

تقابلی مطالعہ مزاہب۔۔۔1



پہاڑوں کی کھو سے نکل کر چاند کی خاک چھاننے تک انسان نے ایک طویل سفر کیا لےاور اس سفر کے ہر مرحلے میں وہ کسی نہ کسی شکل میں مزہب کو مانتا رہا ہے اس لیے مزہب کی تاریخ اتنی ہی پرانی ہے جتنی انسان کی زندگی۔ جس طرح ہر قوم اور ہر علاقے کا کلچر مختلف ہےاسی طرح مزہب میں بھی اختلاف ہے۔ بلکہ یون کہا جا سکتا ہے کہ جیسے ایک انسان کی شکل دوسرے سے کلی طور پر نہیں ملتی اسی طرھ ہر شخص کا عقیدہ بھی کچھ نہ کچھ انفرادی خط و خال رکھتا ہے۔
اس لیے ہم خواہ انسان کی تہزیبی اور معاشرتی زندگی کا مطالعہ کریں یا کسی کی شخصیت اور سیرت و کردار کو موضوع بحث بنائیں دونوں صورتوں میں مزہب اور عقیدت کو نظرانداز نہیں کر سکتے۔
مزہب اور عقیدے کی طویل اور پیچیدہ تاریخ کا مطالعہ اگر گہری نظر اور ٹھنڈے دل و دماغ کے ساتھ کیا جائے تو ہم بنی نوع انسان کی روح کو کھوج سکتے ہیں۔ می
انسان نے ایک طویل جد و جہد کی ہے۔ وہ فطرت کے مظاہر سے خوف زدہ بھی رہا ہے۔ ان سے لڑا بھی ہے اور ان پر فتح یاب بھی ہوا ہے۔
اس نے اپنے تحفظ کے لیے جتنی پناہ گاہیں بنائی ہیں اور جتنی مادی اور غیر مادی قوتیں زندگی کو آفات سے بچانے کے لئے پیدا کی ہیں ان میں سب سے زیادہ قوی پر اثر اور دیر پا قوت عقیدہ ہی ہے۔
یہی سبب ہے کہ انسان نے سب سے زیادہ قربانیاں عقیدے کے لیے دی ہیں۔
اگر یہ ڈور اس کے ہاتھ سے نکل جاتی تو وہ اپنے گرد و پیش کی بے رحم طاقتوں کا شکار ہو گیا ہوتا اور آج زمین پر اس کا وجود ہوتا بھی تو اشرف المخلوقات کی صورت میں نہ ہوتا۔
اس لیے مزہب اور عقیدے کا مطالعہ نوع انسان کی تنظیمی قوت اور بقا کی جد و جہد میں اس کے ثبات اور استقامت کا مطالعہ ہے۔اس مطالعہ کے ضمن میں تاریخ جغرافیہ فلسفہ فنون لطیفہ اور سائنس تک سبھی شعبہ ہاےعلوم سے مدد ملتی ہے۔
اس لئے انسانی علوم کی کوئی شاخ ایسی نہیں ہے جس پر مزہب اثرانداز نہ ہوا ہو۔۔۔۔
جاری ہے۔

No comments:

Post a Comment