دنیا کے بڑے مزاہب میں اسلام کے سوا کوئی مزہب ایسا نہیں
ہے جو تاریخ کی روشنی میں پیدا ہوا ہو۔ اس لیے مزاہب کی تاریخ کا مطالبہ تاریک زمانوں سے شروع ہوتا ہے۔ تاریخی شواہد نہ ہونے کی صورت میں رسوم و عقائد ،طرز زندگی، عبادات، اور معاملات کے گہرے تجرباتی مطالعہ سے ہی نتائج اخذ کیے جا سکتے ہیں۔ اس لیے مزاہب کا مطالعہ بہت سے دوسرے موضوعات کے مطالعہ سے بہت مختلف ہو جاتا ہے۔ اس میں صحیح نتیجے تک پہنچنے کا دار و مدار تجزیہو تحلیل کی صلاحیت پر ہوتا ہے۔
تقابلی مزہب بحث اور تحقیق کا نیا موضوع ہےاس سے پہلے ہمارے علما اس سے واقف نہیں تھے۔ ماضی میں مطالعہ مزہب کا رویہ بھی غیر جانب دارانہ نہیں تھا۔
عموما اپنے ہی مزہب کا مطالعہ اور اسمیں غور و فکر کرتے تھے۔ یا اسکے مختلف فرقوں اور شاخوں کی تفصیل لکھتے تھے۔ دوسرے مزاہب کا ہمدردی کے ساتھ مطالعہ کرنے کی روایت نہیں تھی۔
پھر بھی بعض مسلم علما نے اپنے طور پر تقابلی مزہب کا مقابلہ پیش کیا۔ ان میں سب سے اہم کتاب ابن اندیم (متوفی 385 ہجری) کی الفہرست ہے جس کے مقالہ نہم میں ہندوستانی مزاہب کا حال لکھا گیا ہے۔
اس سے ہم چوتھی صدی کے ہندوستان کا حال جان سکتے ہیں۔
یہ وہ زمانہ ہے جب مسلمان فاتحوں کے قدم اس سرزمین کے شمالی اور وسطی حصوں تک نہیں پہنچے تھے۔
ابن اندیم نے ایک کتاب کا ذکر کیا ہے جو 3 محرم 249 ہجری کو لکھی گئی تھی۔ اس کا نام اس نے ملل الھند و ادیانھا بتایا ہے۔ یعنی ہندوستانی قومیں اور ان کے مزاہب۔
اس کتاب کے مصنف کا نام معلوم نہیں ہو سکا لیکن اس میں کوئی عبارت یعقوب الکندی کی لکھی معلوم ہوتی ہے۔
جاری ہے۔۔۔
No comments:
Post a Comment