کسی مزہب کو سمجھنے کے لئے یہ دیکھنا ہوگا کہ وہ کس تہزیب کی آغوش میں پلا ہے اور اس تہزیب کا سفر کہاں سے شروع ہوا ہے، اس نے بنی نوع انسان کو کیا دیا ہے، دوسری تہزیبوں پر کہاں تک اثر ڈالا ہے، دوسروں سے کیا لیا ہے، انکو کیا دیا ہے۔ کوئی تہزیب یا مزہب بھنورے میں پلا ہوا نہیں ہے۔ افکار سے خوشہ چینی اور لین دین کا فطری عمل ازل سے جاری ہےاور ابد تک رہے گا۔ بعض تنگ نظر لوگوں کو یہ بات گوارا نہیں ہوتی کہ انکی تہزیب یا مزہب نے بھی کسی سے کچھ لیا ہے، اس کو سامنے لایا جائے۔ لیکن تقابلی مزہب ایسی تنگیء نظر کے ساتھ ممکن نہیں۔ ہماری نظر مزہبوں کے مشترک عناصر پر رہنی چاہئے۔
پڑے خانوں میں بانٹیں تو مزاہب میں ایک طرف کثرت پرستی ہے جس میں مظاہرِ فطرت کی پوجا ملے گی، حیوانوں کی پرستش ،درختون کی پوجا، دریاؤں کی تقدیس کسی نہ کسی شکل میں ہر مزہب میں موجود ہے۔ لیکن کثرت پرستی کا فطری سفر توحید کی طرف ہوا ہے۔ یہ کثرت کبھی گھٹ کر تیں میں، کہیں دو میں، رہ گئی ہے۔
پھر وحدت کا نظریہ شروع ہوتا ہےتو اس کو بھی فلسفیانہ بحثوں نےتوحیدِخالص تک پہنچایاہے۔
ہر مزہب میں کچھ باتیں عقل و فہم سے ماورا ہیں۔ کچھ حصہ غیب کا ہے، کچھ توہمات ہیں،سحر و افسوں۔ طلسمات، نذرو نیاز، ٹوٹکے اور غیبی طاقتوں کو منانے یا قابؤ میں لانے کے کچھ نسخےہیں۔ ان کا تقابلی مطالعہ بھی اہم نتائج تک پہنچاتا ہے۔