تقابلی مزہب کے سلسلے میں ایک اور نام محمد بن عبدالکریم شہرستانی کا ہے جو خراسان کے قصبہ شہرستان میں 469 ہجری میں پیدا ہوا اور 547ہجری/1153 عیسوی میں اسکی
وفات ہوئی۔
اس نے 521 ہجری/1127 عیسوی میں اپنی شہرءآفاق کتاب الملل و النحل لکھی مگر اس نے یہ دیکھا ہے کہ کون کون سے مزاہب اسلام کے بنیادی عقائد سے ہٹے ہوئے ہیں اور کون اس سے قریب ہیں۔
اس نے اپنی کتاب میں پہلے اسلامی فرقوں کا حال لکھا ہے، پھر اہلِ کتاب یعنی عیسائی اور یہودی مزاہب سے بحث کی ہے۔
تیسرے حصے میں وہ مزاہب ہیں جن کی الہامی کتابیں مشکوک ہیں۔
وہ عہدِ قدیم کی مظاہر پرستی کے بعد یونانی حکما کے فلسفوں پر بھی علاحدہ علاحدہ بحث کرتا ہے۔ اس مطالعے میں اس کا رویہ اگر غیر جانب دارانہ نہیں تو اسے معاندانہ بھی نہیں کہا جا سکتا لیکن وہ ابن حزم کے مقابلے میں یقیناً نرم تنقید کرتا
ہے۔
شہرستانی نے اپنی کتاب کے آخر میں ہندوستانی مزہب سے بھی بحث کی ہے لکین بدھ مت کے بارے زیادہ لکھا ہے۔
دوسرے مزاہب دی معلومات شاید اسے نہ مل سکی ہوں، ان سے وہ سرسری گزر جاتا ہے۔
ہندوستان میں بھی قدیم علما نے اس موضوع پر کچھ کام کئے ہیں۔ ان میں ہم تین کتابوں کا خاص طور سے ذکر کر سکتے ہیں۔ ایک دبستان مزاہب جسے محسن فانی کشمیری سے منسوب کیا جاتا ہے لیکن صحیح یہ ہے کہ کیخسرو اسفندیار کی تالیف ہے۔
دوسری کتاب داراشکوہ کی مجمع البحرین ہے جس میں تصوف اسلامی اور ویدانت کا تقابل بڑے عالمانہ اور فلسفانہ انداز میں کیا گیا ہے۔ تقابلی مزہب کے موضوع پر ہندوستان میں اس سے اچھی کتاب شاید ہی کوئی لکھی گئی ہو۔
اٹھارھویں صدی کے آخر میں محمد حسن قتیل کی ہفت تماشا بھی ہندوستانی مزاہب اور فرقوں کو سمجھنے کی ایک اچھی کوشش ہے۔ اس صدی میں تو بہت سے اعلی درجے کےکام ہوئے ہیں جن میں ڈاکٹر تارا چند، ایم ۔این رائے اور پنڈت سندرلال کی کوششیں خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔
ہے۔
شہرستانی نے اپنی کتاب کے آخر میں ہندوستانی مزہب سے بھی بحث کی ہے لکین بدھ مت کے بارے زیادہ لکھا ہے۔
دوسرے مزاہب دی معلومات شاید اسے نہ مل سکی ہوں، ان سے وہ سرسری گزر جاتا ہے۔
ہندوستان میں بھی قدیم علما نے اس موضوع پر کچھ کام کئے ہیں۔ ان میں ہم تین کتابوں کا خاص طور سے ذکر کر سکتے ہیں۔ ایک دبستان مزاہب جسے محسن فانی کشمیری سے منسوب کیا جاتا ہے لیکن صحیح یہ ہے کہ کیخسرو اسفندیار کی تالیف ہے۔
دوسری کتاب داراشکوہ کی مجمع البحرین ہے جس میں تصوف اسلامی اور ویدانت کا تقابل بڑے عالمانہ اور فلسفانہ انداز میں کیا گیا ہے۔ تقابلی مزہب کے موضوع پر ہندوستان میں اس سے اچھی کتاب شاید ہی کوئی لکھی گئی ہو۔
اٹھارھویں صدی کے آخر میں محمد حسن قتیل کی ہفت تماشا بھی ہندوستانی مزاہب اور فرقوں کو سمجھنے کی ایک اچھی کوشش ہے۔ اس صدی میں تو بہت سے اعلی درجے کےکام ہوئے ہیں جن میں ڈاکٹر تارا چند، ایم ۔این رائے اور پنڈت سندرلال کی کوششیں خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔