اسلام کا نظریہء حیات و کائنات اس کی اجازت نہیں دیتا کہ طبیعیات کو ما بعد الطبیعیات سے یا دوسرے لفظوں میں مادے کو روح سے علاحدہ کرکے دیکھا جائے۔ علم کی غایت عرفان ہے اور انسان کی حد تک عرفان کی منزل اعلا عرفان نفس ہے۔ اس کا مظہر خشیت ہے اور خشیت قساوت قلبی کی ضد ہے۔ آج انسانی معاشرے میں جو قساوت نظر آ رہی ہے اس کا سبب یہی ہے کہ جدید صنعتی و سائنسی معاشرت سےخوف خدا رخصت ہو گیا ہے۔ اسلامی نظریہ سے اگر سائنس کا استعمال کیا جاتا تو وہ خشیت پیدا کرتا۔
انما یخشی اللہ من عبادہ العلماءُ کا یہی مفہوم ہے اور بعض مفسرین ایک قراۃ یوں بھی کرتے ہیں انما یخشی اللہ من عبادہ العلماءَ یعنی اللہ اپنے بندوں میں سب سے زیادہ علما کا لحاظ کرتا ہے۔
اسلام کے پاس ایک بہت قیمتی سرمایہ ہے جسے چھوڑ کر وہ کچھ بھی نہیں رہ جاتا۔ وہ ہے نظریہءآخرت۔ یا بعث بعد الموت۔ اس کی بنیاد یہ ہے کہ وہ زندگی میں کسی مقصد یا غایت پر یقین رکھتا ہے۔ اعمال کا حساب اسی کو دینا ہوگا جو کسی کا م پر معمور کیا گیا ہو۔ مغربی مادی تہذیب نہ زندگی کا کوئی مقصد سمجھتی ہے نہ غایت۔ اس لیے اس کے یہاں کوئی حساب کتاب بھی نہیں ہے۔ وہ تو کائنات کو اتفاقات کا ایک لا متناہی سلسلہ مانتی ہے۔ کیچڑ میں رینگنے والا کیڑا اور خلا تک جانے والا انسان زندگی میں دونوں برابر کے شریک ہیں۔ رینگتے ہوئے کیڑے ترقی کرکے پرندے اور چوپائے بن گئے۔ چوپایوں میں سے ایک قسم بندر بن گئی دوسری انسان۔ ہر جاندار اپنے ماحول میں خود کو ڈھالنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اور بقا کے لئے مسلسل جد جہد میں لگا ہوا ہے۔ اس نظریہ کی رو سے انسان کا خود کو اشرف المخلوقات کہنا اپنے منہ میاں مٹھو بننا ہے۔ انسان سے زیادہ جہد للبقا میں کامیاب وہ رینگنے والے کیڑے ہیں جو کروڑوں برس سے ایک سی حالت مین زندہ ہیں۔ خواہ کیچڑ میں پڑے ہیں۔ مگر انسان سے زیادہ مطمئن ہیں۔ مغربی نظریہ حیات میں انسان ایک بے دم کا لنگور ہے۔ جو ایک بے مقصد زندگی گزارنے کے لئےاسی طرح پیدا ہوا ہے جیسے مکھی مچھر جھینگے اور کیچوے پیدا ہوئے ہیں۔ اشرفیت اور افضلیت کہاں سے آ گئی؟ جب جہد للبقا مین سب برابر ہو گئے جو احترام انسانیت کا نظریہ بھی باطل ہو گیا۔
مگر قرآن کریم بار بار عظمت انسانیت کا نعرہ بلند کر رہا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ زندگی ایک اتفاقی عمل نہیں ہے۔ اس کا کوئی عامل ہے جو خالق ہے ۔ رب ہے۔ رازق ہے۔۔ محی ہے ۔ ممیت ہے۔ قاہر ہے۔ قادر ہے۔۔۔وغیرہ۔
اس نے انسان کو کسی مقصد سے پیدا کیا ہے۔
افحسبتم انما خلقنکم عبثا و انکم الینا لا ترجعون 95-4
وہ زندگی کے اعمال کا حساب لیگا ۔ اس نے انسان کو شرف و کرامت کے ساتھ پیدا کیا ہے۔
و لقد کرمنا بنی آدم 17-70
اسے اپنے اوصاف سے متصف کیا ہے۔
و نفخت فیہ من روحی۔ 15-29
اور دوسری مخلوقات کے مقابلے میں بہترین قوام سے انسان کو اٹھایا ہے۔
لقد خلقنا الانسان فی احسن تقویم۔ 95-4
انما یخشی اللہ من عبادہ العلماءُ کا یہی مفہوم ہے اور بعض مفسرین ایک قراۃ یوں بھی کرتے ہیں انما یخشی اللہ من عبادہ العلماءَ یعنی اللہ اپنے بندوں میں سب سے زیادہ علما کا لحاظ کرتا ہے۔
اسلام کے پاس ایک بہت قیمتی سرمایہ ہے جسے چھوڑ کر وہ کچھ بھی نہیں رہ جاتا۔ وہ ہے نظریہءآخرت۔ یا بعث بعد الموت۔ اس کی بنیاد یہ ہے کہ وہ زندگی میں کسی مقصد یا غایت پر یقین رکھتا ہے۔ اعمال کا حساب اسی کو دینا ہوگا جو کسی کا م پر معمور کیا گیا ہو۔ مغربی مادی تہذیب نہ زندگی کا کوئی مقصد سمجھتی ہے نہ غایت۔ اس لیے اس کے یہاں کوئی حساب کتاب بھی نہیں ہے۔ وہ تو کائنات کو اتفاقات کا ایک لا متناہی سلسلہ مانتی ہے۔ کیچڑ میں رینگنے والا کیڑا اور خلا تک جانے والا انسان زندگی میں دونوں برابر کے شریک ہیں۔ رینگتے ہوئے کیڑے ترقی کرکے پرندے اور چوپائے بن گئے۔ چوپایوں میں سے ایک قسم بندر بن گئی دوسری انسان۔ ہر جاندار اپنے ماحول میں خود کو ڈھالنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اور بقا کے لئے مسلسل جد جہد میں لگا ہوا ہے۔ اس نظریہ کی رو سے انسان کا خود کو اشرف المخلوقات کہنا اپنے منہ میاں مٹھو بننا ہے۔ انسان سے زیادہ جہد للبقا میں کامیاب وہ رینگنے والے کیڑے ہیں جو کروڑوں برس سے ایک سی حالت مین زندہ ہیں۔ خواہ کیچڑ میں پڑے ہیں۔ مگر انسان سے زیادہ مطمئن ہیں۔ مغربی نظریہ حیات میں انسان ایک بے دم کا لنگور ہے۔ جو ایک بے مقصد زندگی گزارنے کے لئےاسی طرح پیدا ہوا ہے جیسے مکھی مچھر جھینگے اور کیچوے پیدا ہوئے ہیں۔ اشرفیت اور افضلیت کہاں سے آ گئی؟ جب جہد للبقا مین سب برابر ہو گئے جو احترام انسانیت کا نظریہ بھی باطل ہو گیا۔
مگر قرآن کریم بار بار عظمت انسانیت کا نعرہ بلند کر رہا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ زندگی ایک اتفاقی عمل نہیں ہے۔ اس کا کوئی عامل ہے جو خالق ہے ۔ رب ہے۔ رازق ہے۔۔ محی ہے ۔ ممیت ہے۔ قاہر ہے۔ قادر ہے۔۔۔وغیرہ۔
اس نے انسان کو کسی مقصد سے پیدا کیا ہے۔
افحسبتم انما خلقنکم عبثا و انکم الینا لا ترجعون 95-4
وہ زندگی کے اعمال کا حساب لیگا ۔ اس نے انسان کو شرف و کرامت کے ساتھ پیدا کیا ہے۔
و لقد کرمنا بنی آدم 17-70
اسے اپنے اوصاف سے متصف کیا ہے۔
و نفخت فیہ من روحی۔ 15-29
اور دوسری مخلوقات کے مقابلے میں بہترین قوام سے انسان کو اٹھایا ہے۔
لقد خلقنا الانسان فی احسن تقویم۔ 95-4